عن أبي سعيد الخُدْريِّ رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:
«مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ».
[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 49]
المزيــد ...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے, وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :
"تم میں سے جوشخص منکر (غلط کام ) دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اس کی نکیر کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل میں (اسے برا جانے اور اسے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے"۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 49]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث میں حسب استطاعت منکر کو بدلنے کا حکم دے رہے ہیں- منکر سے مراد ہر وہ عمل ہے، جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے- جو شخص کوئی منکر (غلط کام) دیکھے، تو اس پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اگر اس کے پاس طاقت ہو تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ اگر اس کے پاس اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اس پر نکیر کرے۔ یعنی غلط کام کرنے والے کو اسے کرنے سے منع کرے، اسے اس کا نقصان بتائے اور اس کی رہنمائی اس برے کام کی جگہ پر کسی اچھے کام کی جانب کرے۔ اگر اس سے بھی عاجز ہو، تو اس کے دل میں اس غلط کام کے خلاف رد عمل ہونا چاہیے۔ یعنی اس غلط کام کو برا جانے اور یہ عزم کرے کہ اگر اس کے پاس اس سے روکنے کی طاقت آ جائے تو ضرور روکے گا۔ دل کے اندر پیدا ہونے والا یہ رد عمل ایمان کا سب سے کمزور مرتبہ ہے۔