+ -

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
«الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ -أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ- شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ».

[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح مسلم: 35]
المزيــد ...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
”ایمان کی تہتّر سے زیادہ -یا ترسٹھ سے زیادہ- شاخیں ہیں، جن میں سے سب سے افضل شاخ لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم مرتبہ والی شاخ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے“۔

[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح مسلم - 35]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ اعمال، اعتقادات اور اقوال پر مشتمل ایمان کی بہت سی شاخیں ہيں۔
ایمان کی سب سے اعلی و افضل شاخ "لا الہ الا اللہ" کہنا ہے، اس کے معنی کو جانتے ہوئے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے۔ یعنی بس اللہ ہی ایک اکیلا معبود ہے، جو عبادت کے لائق ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔
جب کہ ایمان کا سب سے کم تر عمل راستے سے ہر اس چیز کو ہٹانا ہے، جو لوگوں کی اذیت کا سبب بنے۔
بعد ازاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ دراصل حیا انسان کا ایک ایسا رویہ ہے، جو اسے اچھا کام کرنے اور برے کام سے دور رہنے پر آمادہ کرتا ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل تھائی جرمنی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية ภาษาคีร์กีซ النيبالية ภาษาโยรูบา الليتوانية الدرية الصربية الصومالية คำแปลภาษากินยาร์วันดา الرومانية المجرية التشيكية الموري ภาษามาลากาซี اطالوی ภาษากันนาดา الولوف البلغارية ภาษาอาเซอร์ไบจาน الأوكرانية الجورجية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. ایمان کے کئی مراتب ہیں، جن میں سے کچھ مراتب دوسرے مراتب کے مقابلے میں افضل ہيں۔
  2. ایمان قول، عمل اور اعتقاد کا نام ہے۔
  3. اللہ سے حیا کا تقاضا یہ ہے کہ انسان وہاں نظر نہ آئے، جہاں جانے سے اللہ نے منع کیا ہے اور اس جگہ سے غیر حاضر نہ ہو، جہاں جانے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔
  4. یہاں عدد کا ذکر مذکورہ تعداد کی تحدید کے لیے نہيں ہے، بلکہ ایمان کے اعمال کی کثرت کی کی دلیل ہے۔ کیوں کہ عرب کے لوگ کبھی کبھی کوئی عدد بیان کرتے ہيں اور ماسوا کی نفی مراد نہیں لیتے۔
مزید ۔ ۔ ۔