زمره: عقیدہ .

عن عمر رضي الله عنه قال: «بينما نحن جلوسٌ عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم إذ طَلَعَ علينا رجلٌ شديد بياض الثياب، شديد سَواد الشعر، لا يُرى عليه أثرُ السفر ولا يعرفه منَّا أحدٌ، حتى جلس إلى النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم ، فأسنَد ركبتيْه إلى ركبتيْه، ووضع كفَّيه على فخذيْه، وقال: يا محمد أخبرْني عن الإسلام؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الإسلامُ أن تشهدَ أن لا إله إلا الله وأنَّ محمداً رسول الله، وتقيم الصلاة، وتُؤتيَ الزكاة، وتصومَ رمضان، وتحجَّ البيت إن استطعتَ إليه سبيلاً، قال: صدقتَ، فعَجِبْنا له يَسأله ويُصدِّقه، قال: فأخبرْني عن الإيمان؟ قال: أن تؤمنَ بالله وملائكته وكُتبه ورسُله واليوم الآخر، وتؤمن بالقدَر خيره وشرِّه، قال: صدقتَ، فأخبرْني عن الإحسان؟ قال: أن تعبدَ الله كأنَّك تراه، فإن لَم تكن تراه فإنَّه يراك، قال: فأخبرني عن الساعة؟ قال: ما المسؤول عنها بأعلمَ مِن السائل، قال: فأخبرني عن أمَاراتِها؟ قال: أنْ تلِدَ الأَمَةُ ربَّتَها، وأنْ تَرَى الحُفاةَ العُراة العَالَة رِعاءَ الشاءِ يَتَطاوَلون في البُنيان، ثمَّ انطلق فَلَبِثَ مليًّا ثم قال: يا عمر أتدري مَن السائل؟ قلتُ: الله ورسوله أعلم، قال: فإنَّه جبريلُ أتاكم يعلِّمُكم دينَكم».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا۔ اس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت کالے تھے۔ اس پر سفر کے آثار بھی نہیں دکھائی دے رہے تھے اور ہم میں سے کوئی اسے جانتا بھی نہیں تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر بیٹھا۔ اپنے گھٹنے کو آپ کے گھٹنے سے لگا لیا اور اپنی ہتھیلیاں آپ کی رانوں پر رکھی۔ پھر کہا: اے محمد (ﷺ)! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک جانے کی استطاعت ہو، تو اس کا حج کرو، وہ بولا: آپ نے سچ فرمایا۔ ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے سوال کرتا ہے اور پھر خود ہی آپ کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور ہراچھی و بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ وہ بولا : آپ نے سچ فرمایا ۔ اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ توتمھیں دیکھ رہا ہے۔ وہ کہنے لگا: اب مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :جس سے سوال کیا جا رہا ہے، وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس نے کہا: اچھا تو مجھے اس کی نشانیاں بتائیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (نشانیاں یہ ہیں کہ) لونڈی اپنی مالک کو جنے گی، تم دیکھو گے کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، مفلس اور بکریاں چرانے والے بڑے بڑے محل تعمیر کریں گے۔ اس کے بعد وہ چلا گیا۔ میں کچھ دیر تک ٹہرا رہا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمر ! کیا تم جانتے ہو کہ پوچھنے والا کون تھا ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اوراس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ جبریل (علیہ السلام) تھے۔ وہ تمھیں تمھارے دین کے معاملات سکھانے آئے تھے۔
صحیح - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

شرح

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ جبریل علیہ السلام صحابۂ کرام کی موجودگی میں ایک غیر معروف آدمی کی شکل میں نمودار ہوئے۔ وہ نبی ﷺ کے سامنے متعلم و شاگرد کی طرح بیٹھے۔ انھوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا۔ آپ ﷺ نے اس کا جواب ان ارکان کے ذریعے دیا، جو شہادتین کے اقرار، پنج وقتہ نمازوں کی حفاظت، مستحقین کے لیے ادائے زکاۃ، سچی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنے اور طاقت رکھنے والوں کے حق میں فریضۂ حج کی ادائیگی پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اس کی تصدیق کی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس پر تعجب ہوا کہ ان کا سوال کرنا عدمِ معرفت کی دلیل ہے اور پھر وہ اس کی تصدیق بھی کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ایمان کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے اس کا جواب ان چھے ارکان کے ذریعے دیا، جو ان امور پر مشتمل ہے کہ اللہ ہی خالق وروزی رساں ہے، صفت کمال سے متصف اور نقص سے پاک ہے، فرشتے جنھیں اللہ نے پیدا کیا ہے، عبادت گزار بندے ہیں، اللہ کی معصیت نہیں کرتے اور اس کے حکم کی بجا آوری میں لگے رہتے ہیں، اللہ کی جانب سے رسولوں پر اتاری گئی کتابوں پر ایمان، اللہ کے دین کی نشرواشاعت کرنے والے رسولوں پر ایمان اور اس بات پر ایمان کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اس کا حساب و کتاب لیا جائے گا۔ پھر انھوں نے احسان کے متعلق سوال کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ انسان اللہ کی عبادت اس طرح کرے، گویا وہ اسے کو دیکھ رہا ہے۔ اگر اتنا نہ ہو سکے، تو بندہ اللہ کی عبادت اس خوف سے کرے کہ اللہ اس کی تمام پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ پھر آپ ﷺ نے قیامت کے بارے میں فرمایا کہ مخلوق میں سے کوئی اس (کے آنے کے وقت) سے واقف نہیں ہے۔ قیامت کی علامتوں کے بارے میں فرمایا کہ لونڈیوں اور ان کی اولاد کی کثرت یا اولاد کا بکثرت اپنی ماؤں کی نافرمانی کرنا ہے کہ وہ ان کے ساتھ لونڈیوں کا سا معاملہ کرنے لگیں۔ چرواہوں ومفلسوں کو آخر وقت میں دنیاوی بسط وکشادگی حاصل ہوگی اور وہ عمارتوں کی بلندی ومضبوطی پر فخر کریں گے۔ یہ تمام سوال وجواب جبریل علیہ السلام کے ذریعے دینِ حنیف کی تعلیم کے لیے تھا، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ جبریل (علیہ السلام) تھے، جو تمھیں تمھارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے“۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جرمنی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اللہ کے نبیﷺ کے اچھے اخلاق کا بیان اور یہ کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھتے تھے اور وہ بھی آپ کے پاس بیٹھتے تھے۔ آپ ان سے نہ الگ تھلگ رہتے اور نہ خود کو ان پر فوقیت دیتے تھے۔
  2. فضل و شرف والے لوگوں کے پاس جاتے وقت اچھے کپڑ ے، اچھی شکل و صورت اور صفائی و ستھرا ئی کا اہتمام کرنا چاہیے، کیوں کہ جبریل علیہ السلام اپنی حالت اور بات چیت دونوں سے لوگوں کو تعلیم دینے آئے تھے۔
  3. فرشتے اپنی اصلی صورت کے علاوہ دوسری صورتیں بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
  4. سائل کے ساتھ نرمی کرنا اور اسے قریب کرنا، تاکہ بغیر کسی خوف اور جھجھک کے سوال کرسکے۔
  5. استاد کے ساتھ ادب کا معاملہ کرنا کہ جبریل علیہ السلام اللہ کے نبیﷺ سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کے سامنے ادب سے بیٹھ گئے۔
  6. توریہ (ایسا لفظ جو قریب وبعید دو معنوں پر مشتمل ہو لیکن اس کا بعید معنیٰ مقصود ہو)کا جائز ہونا، جیسا کہ (جبریل) کا (يا مُحَمَّد) کہنا، کیوں کہ یہ جملہ (دراصل) دیہاتیوں کا جملہ ہے۔ جبریل نے یہاں اسے بطور توریہ استعمال کیا۔ گویا کہ وہ ایک دیہاتی شخص ہیں، ورنہ شہرکے بہترین اخلاق سے متصف لوگ رسولﷺکو اس طرح کے الفاظ سے نہیں پکارا کرتےتھے۔
  7. اسلام، ایمان اوراحسان کے درمیان فرق کا بیان۔
  8. ایمان کے چھ ارکان پر ایمان، غیب پر ایمان کا حصہ ہے۔
  9. اسلام کے پانچ اور ایمان کے چھ ارکان ہیں۔
  10. اسلام اور ایمان کے جمع ہونے پر اسلام کی تفسیر ظاہری امور سے ہوتی ہے اور ایمان کی تفسیر باطنی امور سے ۔
  11. احسان کے درجہ کے بلند ہونے کا بیان۔
  12. سائل کے سلسلے میں اصل عدم علم ہے اور جہالت سوال کرنے کا باعث ہے۔
  13. پہلے سب سے اہم اور پھر اس سے کم اہم چیز سے ابتدا کرنا، کیوں کہ اسلام کی تفسیر میں شہادتین سے ابتدا کی گئی ہے اور ایمان کی تفسیر میں ایمان باللہ سے کی گئی ہے۔
  14. عالم سے اس چیز کے بارے میں سوال کرنا، جسے سائل جانتا ہو، تاکہ سامع اس کوجان سکے۔
  15. جس سے کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اس سے واقف نہ ہو، تو اس کا اس کے بارے میں 'اللہ اعلم' کہنا۔
  16. قیامت کا علم ان چیزوں میں سے ہے، جن کا علم اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے۔
  17. علامات قیامت میں سے بعض کا بیان۔