عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه مرفوعاً: «إنما الأعمال بِالنيَّات، وإنما لكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرتُه إلى الله ورسوله فهجرتُه إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرتُه لدنيا يصيبها أو امرأةٍ ينكِحها فهجرته إلى ما هاجر إليه».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہے، اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔
صحیح - متفق علیہ

شرح

یہ بہت عظیم الشان حدیث ہے۔ بعض علماء تو اسے تہائی اسلام گردانا ہے۔ مومن کو اس کی نیت اور اس کی درستگی کے مطابق ثواب دیا جاتا ہے۔ پس جس کے اعمال خالصتاً اللہ کے لیے ہوں، انہیں شرف قبولیت حاصل ہو گی اگرچہ وہ بہت تھوڑے اور ہلکے ہی کیوں نہ ہوں بشرطیکہ وہ سنت کے مطابق ہوں۔ اور جس کے اعمال لوگوں کو دکھانے کے لیے ہوں اور خالصتا اللہ کے لیے نہ ہوں تو وہ رد کر دیے جائیں گے اگرچہ وہ بہت بڑے اور بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ہر وہ عمل جس سے اللہ کی رضا کے بجائے کچھ اور مقصود ہو چاہے یہ مقصود کوئی عورت ہو یا پھر مال و جاہ یا امورِ دنیا میں سے کچھ اور تو اسے صاحب عمل پر رد کر دیا جاتا ہے اور اس کا یہ عمل اللہ قبول نہیں فرمائے گا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ نیک عمل کی قبولیت کی دو شرائط ہیں: ایک تو یہ کہ عمل خالصتاً اللہ کے لیے ہو اور دوسرا یہ کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے موافق ہو۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جرمنی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اخلاص کی ترغیب، کیوں کہ اللہ اسی عمل کو قبول کرتا ہے جس سے اس کی رضا مقصود ہو۔
  2. وہ افعال جن سے اللہ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے، اگر آدمی ان میں سے کسی کام کو بطور عادت کے کرے، تو محض اس فعل کو انجام دینے پر اسے ثواب نہیں ملے گا، اگرچہ وہ صحیح ہو، جب تک اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا ارادہ نہ کیا جائے۔
  3. اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کی فضیلت اور یہ کہ یہ اعمال صالحہ میں سے ہے، کیوں کہ اس کے ذریعہ اللہ کا قصد کیا جاتا ہے۔
  4. یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے، جن پر اسلام کا مدار ہے۔ اسی لیے علما نے کہا ہے کہ اسلام کا مدار دو حدیثوں پر ہے۔ ایک یہ حدیث اور دوسری عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث : "مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلِيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ" یعنی جس نے کوئی ایسا کام کیا، جو ہمارے دین کا حصہ نہیں ہے، تو اسے ٹھکرا دیا جائے گا۔ اس طرح دیکھا جائے، تو یہ حدیث اعمال قلوب کی اصل ہے، جو کہ باطنی اعمال کی میزان ہے، جب کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اعمال جوارح کی اصل ہے۔
  5. بعض عبادتوں کی بعض سے اور عبادتوں کی معاملات سے تمیز کرنا واجب ہے اور صورت میں مشابہت رکھنے والے اعمال کے درمیان تفریق صرف نیّت کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
  6. قصد و ارادے سے خالی عمل لغو ہے اور اس پر کوئی حکم اور بدلہ مرتب نہیں ہوتا۔
  7. جو اپنے عمل میں مخلص ہو گا، اسے حکم اور بدلے کے اعتبار سے اس کی مراد حاصل ہوگی، اس کا عمل درست ہوگا اور شروط عمل کے پائے جانے پر ثواب بھی ملے گا۔
  8. اخلاص و للہیت کے بغیر عمل ضایع ہو جاتا ہے۔
  9. دنیا اور اس کی پسندید چیزوں کی تحقیر، کیوں کہ آپ کا فرمان ہے : "فهجرته إلى ما هاجر إليه"۔ (اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہے، جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔) یہاں آپ ﷺ نے دنیا کی طرف ہجرت کرنے والے کے لیے حاصل ہونے والی چیز کو مبہم رکھا ہے، جب کہ اس کے برخلاف اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے والے کے لیے حاصل ہونے والی چیز کی صراحت فرما دی ہے۔ یہ حسن بیان اور بلاغتِ کلام کا ایک نمونہ ہے۔
مزید ۔ ۔ ۔