عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
«إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ».
وفي لفظ للبخاري: «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح مسلم: 1907]
المزيــد ...
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہی ملے گا، جس کی اس نے نیت کی۔ چنانچہ جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہو، تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہے اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو، تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہے، جس کے لیے اس نے ہجرت کی"۔جب کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے : "اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہی ملے گا، جس کی اس نے نیت کی۔"
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح مسلم - 1907]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ سارے اعمال کا اعتبار نیت کی بنیاد پر ہے۔ یہ حکم عبادات اور معاملات جیسے سبھی اعمال کے لیے عام ہے۔ جو شخص کسی منفعت کے پیش نظر کوئی کام کرے گا، اسے ثواب نہیں، بلکہ بس وہی منفعت حاصل ہوگی اور جو اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کوئی کام کرے گا، اسے اپنے عمل کا ثواب ملے گا، چاہے وہ عمل کھانے اور پینے جیسا معمول کے مطابق کیا جانے والا کام ہی کیوں نہ ہو۔
پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اعمال پر نیت کے اثر کو بیان کرنے کے لیے ایک مثال پیش کی، جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ عمل کی ظاہری شکل ایک ہونے کے باوجود ملنے والا نتیجہ الگ الگ ہے۔ آپ نے بتایا کہ جس نے ہجرت اور اپنا وطن چھوڑنے کے پیچھے نیت یہ رکھی کہ اللہ کی خوش نودی حاصل ہوجائے، اس کی ہجرت دینی ہجرت ہے اور اسے اس کی صحیح نیت کی وجہ سے ثواب ملے گا۔ اس کے برخلاف جس نے ہجرت کرتے وقت دنیوی منفعت، جیسے مال و دولت، عہدہ و منصب، تجارت اور شادی وغیرہ کو پیش نظر رکھا، اسے بس وہی منفعت حاصل ہوگی، جسے حاصل کرنے کی اس نے نیت کی تھی۔ اجر و ثواب اور نیکی اس کے حصے میں نہيں آئے گی۔