+ -

عَنْ أَبي مَسْعُودٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلاَمِ النُّبُوَّةِ الأُولَى: إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ».

[صحيح] - [رواه البخاري] - [صحيح البخاري: 6120]
المزيــد ...

ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
”پہلے کے انبیا علیہم السلام کے کلام سے جو باتیں لوگوں نے حاصل کیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تیرے اندر شرم و حیا نہ رہے، تو جو چاہے کر۔“

[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح البخاري - 6120]

شرح

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ پچھلے انبیا کی کی ہوئی جو وصیتیں لوگوں میں رائج رہی ہیں اور نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی اس امت کی پہلی نسل تک آئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ: جو کام تم کرنا چاہتے ہو، پہلے اسے دیکھ لو، کام اگر ایسا ہو کہ اسے کرنے میں حیا نہیں کی جاتی ہے، تو کر ڈالو۔ لیکن کام اگر ایسا ہو کہ اسے کرتے ہوئے حیا کی جاتی ہے، تو چھوڑ دو۔ کیوں کہ برے کاموں سے روکنے والی چيز حیا ہی ہے۔ جس کے اندر حیا نہ ہو، وہ ہر فحش اور غلط کام میں ملوث ہو جائے گا۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم سواحلی تھائی پشتو آسامی الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الرومانية คำแปลภาษาโอโรโม
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. حیا اچھے اخلاق کی اساس ہے۔
  2. حیا انبیا کے اوصاف میں سے ایک وصف اور انھیں سے منقول ہے۔
  3. حیا ایسی چيز ہے، جو ایک مسلمان کو ایسے کاموں پر آمادہ کرتی ہے، جو اس کی شخصیت کو خوب صورت بناتی اور ایسے کاموں سے دور رکھتی ہے جو اس کی شخصیت کو مجروح کرتے ہوں۔
  4. نووی کہتے ہيں : یہاں حکم اباحت پر محمول ہے۔ مطلب یہ ہےکہ جب تم کوئی کام کرنے کا ارادہ کرو، تو کام اگر ایسا ہو کہ اسے کرتے وقت اللہ اور لوگوں سے حیا نہ آتی ہو، تو کر ڈالو۔ لیکن اگر حیا آتی ہو، تو مت کرو۔ اسی پر اسلام کا دار و مدار ہے۔ اسے اس طرح سمجھیں کہ جن واجب اور مستحب کاموں کا حکم ہو، انھیں چھوڑنے میں حیا کی جاتی ہے اور جن حرام اور مکروہ چیزوں سے منع کیا گیا ہو، انھیں کرنے میں حیا کی جاتی ہے۔ جب کہ مباح کام کو کرنے میں حیا کرنا بھی جائز ہے اور چھوڑنے میں حیا کرنا بھی جائز ہے۔ اس طرح اس حدیث کے دائرے میں پانچوں احکام آ گئے۔ جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں دیا گیا حکم تہدید آمیز ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تم سے حیا کی دولت چھن جائے، تو جو جی میں آئے کرو، اللہ تم کو ضرور اس پر سزا دے گا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں حکم خبر کے معنی میں ہے۔ یعنی جسے حیا مانع نہ ہو، وہ جو چاہتا ہے، کرتا پھرتا ہے۔
مزید ۔ ۔ ۔