عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:
قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَنُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ: «مَنْ أَحْسَنَ فِي الْإِسْلَامِ لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَنْ أَسَاءَ فِي الْإِسْلَامِ أُخِذَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 6921]
المزيــد ...
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول! ہم نے جو گناہ زمانۂ جاہلیت میں کیے ہیں، کیا ان کا بھی مؤاخذہ ہم سے ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "جس نے اسلام لانے کے بعد اچھے عمل کیے، اس کا ان اعمال پر مؤاخذہ نہیں ہو گا جو اس نے جاہلیت میں کیے اور جس نے اسلام میں برے کام کیے، وہ اگلے اور پچھلے دونوں طرح کے عملوں پر پکڑا جائے گا"۔
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 6921]
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسلام قبول کرنے کی فضیلت بیان کر رہے ہیں۔ جو شخص اسلام لائے اور پھر اس کا اسلام ٹھیک رہے اور وہ صدق واخلاص سے متصف رہے، تو ان گناہوں پر اس کا مؤاخذہ نہیں ہوگا، جو اس نے جاہلیت میں کیے تھے۔ اور جو شخص اسلام لانے کے بعد بھى برا ہى رہا، بایں طور کہ دل میں نفاق چھپائے رکھا یا دین سے مرتد ہوگیا، تو اس سے ان تمام اعمال کا حساب و کتاب ہوگا، جو اس نے کفر اور اسلام کی حالت میں کیے۔