عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْنَا فِي الجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ: «مَنْ أَحْسَنَ فِي الإِسْلاَمِ لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلَ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَمَنْ أَسَاءَ فِي الإِسْلاَمِ أُخِذَ بِالأَوَّلِ وَالآخِرِ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہم نے زمانۂ جاہلیت میں جو گناہ کیے ہیں، کیا ان پر ہمارا مؤاخذہ ہوگا؟ آپﷺنے فرمایا: ’’جس نے اسلام میں (داخل ہونے کے بعد) اچھا کام کیا، اس کا جاہلیت میں کیے گئے اعمال کے بارے میں مؤاخذہ نہیں ہوگا اورجس نے اسلام میں (داخل ہونے کے بعد) برا کام کیا، اس سے پہلے اور بعد والے دونوں گناہوں کے متعلق باز پرس ہوگی۔‘‘
صحیح - متفق علیہ

شرح

ایک شخص نے اللہ کے نبیﷺ سے زمانۂ جاہلیت میں کیے گئے گناہوں اور نافرمانیوں کے بارے میں پوچھا کہ ان کو ان گناہوں کی بھی سزا ملے گی اور ان سے ان کی بھی بازپرس ہوگی؟ تو اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا : "جس نے اسلام میں (داخل ہونے کے بعد) اچھا کام کیا"۔ -اسلام میں (داخل ہونے کے بعد) اچھا کام کرنے سے مراد اپنے دین پر قائم رہنا اور گناہوں کو چھوڑ دینا ہے- اس سے جاہلیت کے زمانے میں کیے ہوئے گناہوں کی بازپرس نہيں ہوگی۔ چاہے گناہ کبیرہ، جیسے قتل اور زنا ہوں یا صغیرہ۔ لیکن جس نے اسلام میں (داخل ہونے کے بعد) برا کام کیا، -یہاں اسلام میں داخل ہونے کے بعد برا کام کرنے سے مراد دین سے پھر جانا ہے- اس سے کفر کے زمانے میں کیے ہوئے گناہوں اور اسلام میں داخل ہونے کے بعد کیے ہوئے گناہوں، دونوں کی بازپرس ہوگی۔ یہی اس حدیث کا صحیح معنی ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد برا کام کرنے سے مراد گناہ اور نافرمانی کرنا ہے، تو بظاہر یہ امت کے اس اجماع کے خلاف ہوگا کہ اسلام پہلے کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ یہ اجماع ایک صحیح حدیث پر مبنی ہے، جو صحیح مسلم میں موجود ہے۔ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے : "آپ کافروں سے کہہ دیجیے کہ اگر یہ لوگ باز آ جائیں، تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں، معاف کر دیے جائیں گے۔ لیکن اگر وہی عادت رکھیں گے، تو (کفار) سابقین کے بارے میں قانون نافذ ہو چکا ہے۔" ایسے میں اس حدیث کی تاویل یہ کی جائے گی کہ اسے کفر کے زمانے میں کيے گئے کاموں کی عار دلائی جائے گی اور ڈانٹ پھٹکار کی جائے گی۔ گویا کہ اس سے کہا جائے گا : کیا تم نے کفر کی حالت میں یہ اور یہ کام نہیں کیے تھے؟ پھر اسلام قبول کرنے کے بعد تم نے دوبارہ اسی طرح کے کام کیوں کیے؟ پھر اسے اسلام قبول کرنے کے بعد کیے ہوئے گناہوں کی سزا دی جاے گی۔ کچھ لوگوں کے مطابق اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد برا کام کرنے سے مراد یہ ہے کہ آدمی صحیح ایمان والا نہ ہو یا پھر خالص مسلمان نہ ہو اور منافق وغیرہ ہو۔ لیکن پہلی مفہوم ہی قابل اعتماد ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جرمنی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الدرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. صحابہ رضوان اللہ علیہم کا اعمال اور ان کی قبولیت کا اہتمام کرنا۔
  2. اسلام قبول کرنے کے بعد اچھے کام کرنے اور معاصی کو ترک کرنے کی ترغیب۔
  3. اسلام سے پھر جانے والے شخص کو اسلام قبول کرنے بعد اور کفر کے زمانے، دونوں حالتوں میں کیے ہوئے گناہوں کا حساب دینا پڑے گا۔
مزید ۔ ۔ ۔