عن ابن عباس رضي الله عنهما : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بعث معاذا إلى اليمن قال له: "إنك تأتي قوما من أهل الكتاب، فليكن أولَ ما تدعوهم إليه شهادة أن لا إله إلا الله" -وفي رواية: "إلى أن يوحدوا الله-، فإن هم أطاعوك لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوك لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فَتُرَدُّ على فقرائهم، فإن هم أطاعوك لذلك فإياك وكَرَائِمَ أموالِهم، واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب".
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔ تم انہیں سب سے پہلے تم انھیں اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ تم انھیں سب سے پہلے اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالی کی توحید کا اقرار کرلیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو پھر انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ان میں سے اصحابِ ثروت سے وصول کر کے انہی میں سے فقیر لوگوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو ان کے عمدہ اور قیمتی اموال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیوں کہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔
صحیح - متفق علیہ

شرح

نبی ﷺ نے جب معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ کو یمن کے ایک علاقے میں داعی اور معلم بنا کر بھیجا تو انہیں دعوت دینے کے سلسلے میں ایک لائحہ عمل فراہم کیا۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے وضاحت فرمائی کہ ان کا سامنا یہود و نصاری کے ایک ایسے گروہ سے ہوگا جو اہل علم اور بحث کرنے والے ہیں تاکہ وہ ان کے ساتھ مناظرہ کرنے اور ان کے شبہات کو دور کرنے کے لیے پوری طرح تیار رہیں۔ پھر آپ نے ان کو تلقین کی کہ اپنی دعوت کا آغاز سب سے اہم چیز کے ساتھ کریں اور اس کے بعد ان چیزوں کی دعوت دیں جو اس سے کم اہم ہوں۔چنانچہ لوگوں کو سب سے پہلے عقیدے کی درستگی کی دعوت دیں کیوں کہ یہ بنیاد ہے۔ جب وہ ان کی بات کو مان لیں تو پھر انہیں نماز قائم کرنے کا حکم دیں کیوں کہ یہ توحید کے بعد واجبات میں سے سب سے بڑا واجب ہے۔ جب وہ نماز کو قائم کرنے لگ جائیں تو ان کے امیر لوگوں کو اپنے اموال کی زکوۃ نکال کر کے اپنے فقراء کو دینے کا حکم دیں تاکہ فقراء کی دلجوئی ہو سکے اور اللہ کا شکر ادا ہو سکے۔پھر آپ ﷺ نے معاذ بن جبل کو اس بات سے منع کیا کہ وہ (بطورِ زکوۃ) ان کا عمدہ مال لیں کیوں کہ فرض درمیانہ مال ادا کرنا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے عدل کرنے اور ظلم کو ترک کرنے کی ترغیب دی تاکہ یہ نہ ہو کہ کوئی مظلوم ان کے خلاف دعا کردے کیوں کہ مظلوم کی دعا ضرور قبول ہو کر رہتی ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جرمنی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. دعاۃ الی اللہ کو بھیجنے کی مشروعیت۔
  2. لاالہ الااللہ کی گواہی دینا سب سے پہلا واجب ہے اور اسی کی طرف لوگوں کوسب سے پہلے دعوت دی جانی چاہیے۔
  3. لاالہ الا اللہ کی گواہی کا مطلب ہے، صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت سے کنارہ کش ہو جانا۔
  4. بسا اوقات انسان لاالہ الا اللہ پڑھتا تو ہے، لیکن اس کا مطلب نہیں جانتا یا جانتا تو ہے، لیکن اس کے مطابق عمل نہیں کرتا، جیسا کہ اہل کتاب کا حال ہے۔
  5. عالم کو مخاطب کرنا جاہل کومخاطب کرنے کی طرح نہیں ہے۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے : "إنك تأتي قوما أهل كتاب". یعنی تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔
  6. اس بات پرتنبیہ کہ انسان بالخصوص داعی کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کے بارے میں بصیرت رکھے، تاکہ شبہات پیدا کرنے والوں کے شبہات سے نجات پاسکے۔ اس کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔
  7. شہادتین کے بعد نماز سب سے عظیم واجب ہے۔
  8. پنج وقتہ نمازوں کی فرضیت۔
  9. صلاۃ وتر واجب نہیں ہے۔
  10. نماز کے بعد زکاۃ سب سے ضروری رکن ہے۔
  11. مال داروں کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔
  12. زکاۃ کے مصارف میں ایک مصرف یعنی فقرا کا بیان۔ ساتھ ہی یہ کہ ان پر اکتفا کرنا جائز ہے اور زکاۃ کے آٹھوں مصارف کو زکاۃ دینا واجب نہیں ہے۔
  13. اس حدیث کی بنیاد پر اصل یہی ہے کہ ہر ملک کی زکاۃ وہاں کے فقیروں کو دے دی جائے۔ لیکن اگر کسی غالب مصلحت، جیسے کسی دوسرے ملک کی زیادہ ضرورت یا رشتے دار حاجت مندوں کی موجودگی وغیرہ کی وجہ سے زکاۃ کا مال کسی دوسرے ملک کی طرف زکاۃ منتقل کردیا گیا، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
  14. زکاۃ کافر کو نہیں دی جائے گی۔
  15. مالک کی رضامندی کے بغیر اس کے عمدہ مال کو زکاۃ کے طور پر لینا جائز نہیں ہے۔
  16. عمدہ مال کو زکاۃ کے طور پر لینا حرام ہے۔ زکاۃ کے طور پر اوسط درجے کا مال لیا جائے گا۔
  17. ظلم سے آگاہی اور ساتھ میں یہ کہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے، اگرچہ وہ گنہگار ہو۔
مزید ۔ ۔ ۔