عَن عَبدِ الله بنِ الشِّخِّير رضي الله عنه قَالَ:
انْطَلَقْتُ في وَفدِ بَنِي عَامِرٍ إِلى رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم، فَقُلنا: أَنتَ سيّدُنَا، فقال: «السَّيدُ اللهُ»، قُلنا: وَأَفْضَلُنا فَضْلاً، وأعظَمُنا طَوْلاً، فقال: «قُولُوا بِقَولِكُم، أَو بَعضِ قولِكُم، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُم الشَّيطَانُ».
[صحيح] - [رواه أبو داود وأحمد] - [سنن أبي داود: 4806]
المزيــد ...
عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں :
میں بنی عامر کے ایک وفد کے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہاں پہنچ کر ہم نے کہا : آپ ہمارے سید ہیں۔ لہذا آپ نے کہا : "سید تو اللہ ہے۔" ہم نے عرض کیا : آپ ﷺہم میں سب سے فضیلت والے اور صاحب جود و سخا ہیں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا: ” تم اس طرح کی بات یا اس طرح کی کچھ بات کہہ سکتے ہو۔ مگر کہیں شیطان تمھیں اپنا وکیل نہ بنا لے ( کہ کوئی ایسی بات کہہ گزرو، جو میری شان کے مطابق نہ ہو)۔"
[صحیح] - - [سنن أبي داود - 4806]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کچھ لوگ پہنچے۔ پہنچنے کے بعد انھوں نے آپ کی تعریف میں کچھ باتیں کہیں، جو آپ کو پسند نہيں آئیں۔ انھوں نے کہا : "آپ ہمارے سید ہیں"۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے کہا: "سید تو اللہ ہے"۔ اسی کے پاس مخلوقات کی مکمل سرداری ہے۔ سب اس کے غلام ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے کہا : "آپ ہم میں سب سے فضیلت والے" یعنی سب سے اونچے مرتبے، شرف و منزلت اور امتیازی شان والے ہیں۔ "اور آپ ہم میں سب سے صاحب جود و سخا" یعنی داد و دہش کرنے والے اور اونچی شان کے حامل ہيں۔ اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت کی کہ آپ کو سادہ الفاظ میں مخاطب کریں اور بھاری بھرکم الفاظ تلاش نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ شیطان انہیں مبالغہ آرائی کی راہ پر لے جائے، جو شرک اور اس کے اسباب کی طرف لے جاتا ہے۔