عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ:
تَلَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ: {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ، وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ، وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ} [آل عمران: 7]. قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِذَا رَأَيْتِ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّى اللهُ، فَاحْذَرُوهُمْ».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 4547]
المزيــد ...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "وہی تو ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور کچھ دوسری متشابہات۔ پھر جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور انہیں معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے حقیقی معنی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ ہاں جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق تو صرف دانش مند ہی حاصل کرتے ہیں۔" [آل عمران: 7]. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو قرآن کریم کی متشابہ آیات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں، جن کا نام اللہ تعالٰی نے اصحاب زیغ (کجی والے) رکھا ہے۔ ایسے لوگوں سے اجتناب کرو۔‘‘
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 4547]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "وہی تو ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور کچھ دوسری متشابہات، یعنی ملتی جلتی ہیں۔ پھر جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور انہیں معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالاں کہ ان کے حقیقی معنی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ ہاں جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق تو صرف دانش مند ہی حاصل کرتے ہیں۔" اس آیت میں اللہ پاک نے یہ بتایا ہے کہ اسی نے اپنے نبی پر قرآن نازل فرمایا، جس میں کچھ واضح طور پر دلالت کرنے والی آیتیں ہیں، جن کے احکام معروف ومشہور ہیں اور ان میں کوئی التباس نہیں ہے۔ یہ آیتیں ہی قرآن کی اصل اور مرجع ہیں۔ اختلاف کے وقت انہی آیتوں کی طرف لوٹنا چاہیے۔ جب کہ قرآن کی کچھ آیتیں ایسی بھی ہیں، جن میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال پایا جاتا ہے۔ بعض لوگوں پر ان کے معانی کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے یا وہ یہ گمان کر بیٹھتے ہیں ان آیتوں کا دوسری آیتوں سے تعارض وتصادم ہے۔ پھر اللہ تعالی نے ان آیتوں کے تئیں لوگوں کے تعامل کی وضاحت فرمائی۔ چنانچہ جن لوگوں کے دل حق سے پھرے ہوئے ہیں، وہ محکم آیتوں کو چھوڑ دیتے اور (ایک سے زائد معانی پر محتمل) متشابہ آیتوں کو لےلیتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد شبہات پھیلانا اور لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف جو لوگ علم میں پختہ ہیں وہ ان متشابہ آیتوں کو سمجھتے ہیں اور انہیں محکم آیتوں کی طرف لوٹاتے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں اور یہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ اللہ پاک کی جانب سے ہیں، اس لیے ان کے درمیان تعارض اور التباس ناممکن ہے۔ لیکن اس سے نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل سلیم کے حامل ہیں۔ پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ اگر انہیں متشابہ آیتوں کی جستجو میں پڑے ہوئے لوگ نظر آئیں، تو جان لیں کہ یہی وہ لوگ ہیں، جن کا نام اللہ تعالی نے اس آيت میں لیا ہے : "جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے"، اس لیے ان سے دور رہیں اور ان کی باتوں پر کان نہ دھریں۔