عن عرفجة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من أتاكم وأمرُكُم جَمِيْعٌ على رجل واحد، يُريد أن يَشُقَّ عَصَاكُم، أو يُفَرِّقَ جَمَاَعَتَكُم، فاقتُلُوهُ".
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...

عرفجہ رضی اللہ عنہ سے روایت وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتےہوئے سنا: ”جب تمہارا نظام (حکومت) کسی شخص کے ذمہ ہو پھر کوئی تمہارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے یا تمہاری جماعت کو منتشر کرنے کے ارادے سے آئے تو اس کو قتل کر دو“۔
صحیح - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

شرح

اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کا کسی حاکم کو اجتماعی طور پر تسلیم کرنے کے بعد کوئی باغی گروہ ان کے مابین تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کے ساتھ قتال کیا جائے گا۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمان جب کسی ایک خلیفہ پر مجتمع ہو جائیں پھر ان میں سے کوئی ایک مسلمانوں کے ذریعہ متفقہ طور پر منتخب خلیفہ کو معزول کرنے کی کوشش کرے تو اس پر حد لاگو کرنا واجب ہو گی، چاہے اس کو قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے تاکہ اس کے شر کو روکا اور مسلمانوں کے خون کا تحفظ کیا جا سکے۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. مسلمانوں کے حاکم کی فرماں برداری واجب ہے اور اس کے خلاف بغاوت کرنا حرام ہے۔
  2. جو شخص کسی ایسے امام کے خلاف بغاوت کرے، جسے سارے مسلمان متفقہ طور پر حکمراں تسلیم کرتے ہوں، اسے قتل کرنا واجب ہے، چاہے اس کا رتبہ شرف و نسب کے اعتبارسے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو۔
  3. اس حدیث کے ظاہر کے دائرے میں بغاوت کرنے والا ایک شخص بھی آتا ہے اور ایسے لوگوں کی ایک جماعت بھی۔ دونوں صورتوں میں قتل کیا جائے گا۔ لیکن اگر جماعت طاقت و قوت والی ہو اور اس کے افراد کسی جائز تاویل کے ذریعہ خروج کریں، تو یہ لوگ باغی ہیں۔ لیکن اگر ان کے پاس کوئی تاویل نہ ہو اور حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے ہوں، تو ان کا حکم ڈاکوؤں جیسا ہوگا۔
  4. اجتماع و اتحاد کو اپنانے اور اختلاف و تفرقے سے دور رہنے کی ترغیب ۔
مزید ۔ ۔ ۔