عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال:
«مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً، وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ، يَغْضَبُ لِعَصَبَةٍ، أَوْ يَدْعُو إِلَى عَصَبَةٍ، أَوْ يَنْصُرُ عَصَبَةً، فَقُتِلَ، فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ، وَمَنْ خَرَجَ عَلَى أُمَّتِي، يَضْرِبُ بَرَّهَا وَفَاجِرَهَا، وَلَا يَتَحَاشَى مِنْ مُؤْمِنِهَا، وَلَا يَفِي لِذِي عَهْدٍ عَهْدَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُ».
[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 1848]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
”جو (امیر کی) اطاعت سے نکل جائے اور (مسلمانوں کی) جماعت چھوڑ دے اور اسی حال میں اس کی موت ہو جائے، تو ایسی موت جاہلیت کی موت ہے۔ جو شخص ایسے جھنڈے تلے لڑائی لڑے، جس کا مقصد واضح نہ ہو، وہ عصبیت کی بنا پر غصے میں آتا ہو، يا عصبیت کی دعوت دیتا ہو یا عصبیت کا تعاون کرتا ہو، پھر اسی حالت میں مارا جائے، تو اس کی موت جاہلیت والی موت ہے۔ جو میری امت کے خلاف لڑائی کے لیے نکلے اس طور پر کہ امت کے نیک و برے لوگ سبھی کو مارے، نہ مؤمن کو چھوڑے نہ معاہد کے عہد کو نبھائے، ایسا شخص مجھ میں سے نہيں ہے اور میں اس میں سے نہیں ہوں۔"
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 1848]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ جو شخص حکمرانوں کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکل گیا اور امام کی بیعت پر اتفاق رکھنے والی جماعت اسلام سے الگ ہو گيا، پھر اسی علاحدگی اور عدم اطاعت کی حالت میں مر گیا، تو وہ زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی موت مرا، جو نہ کسی امیر کی اطاعت کرتے تھے اور نہ ایک جماعت سے جڑے ہوئے تھے۔ بلکہ الگ الگ ٹولیوں اور جتھوں میں بٹے ہوئے تھے اور ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔
۔ اسی طرح آپ نے بتایا کہ جس نے کسی ایسے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر جنگ کی، جس کے بارے میں یہ واضح نہ ہو کہ وہ حق کی بنیاد پر اٹھایا گیا ہے یا باطل کی بنیاد پر، پھر وہ اللہ کے دین کے لیے نہیں، بلکہ اپنی قوم یا اپنے قبیلے کے تعصب میں طیش میں آتا ہو اور علم و بصیرت سے خالی ہو کر محض تعصب کی بنیاد پر جنگ میں شریک ہوتا ہو اور اسی حالت میں مر جائے، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔
اسی طرح جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے خلاف بغاوت کی، وہ اس کے نیک و بد سبھی لوگوں کی گردن ناپنے لگے، اپنی ان حرکتوں کی کوئی پرواہ نہ رکھے، ایمان والوں کے قتل کے انجام سے خوف نہ کھائے، معاہد غیر مسلموں اور حکمرانوں سے کیے گئے وعدے کو پورا نہ کرے، تو وہ اپنے ان گناہوں کی وجہ سے، جو کبیرہ گناہوں کے ضمن میں آتے ہیں، اس شدید ترین وعید کا حق دار بن گیا۔