عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «عَقْل شِبْهِ العمد مُغَلَّظٌ مِثْلُ عَقْلِ العَمْدِ، ولا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وذلك أَنْ يَنْزُوَ الشَّيْطَانُ بين الناس، فتكون دماء في عِمِّيَّا في غير ضَغِينَة، ولا حَمْلِ سلاح».
[حسن] - [رواه أبو داود وأحمد]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”قتل شبہِ عمد کی دیت بھی اتنی ہی سخت ہے جتنی قتلِ عمد کی ہے تاہم قتلِ شبہِ عمد کے مرتکب کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔ قتل شبہِ عمد یہ ہے کہ شیطان لوگوں کے مابین در آئے اور (اس کے اکساوے میں آ کر) بنا کسی دشمنی اور اسلحہ اٹھائے انجانے میں ہی خون بہہ جائے“۔
[حَسَنْ] - [اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ قتلِ شبہ عمد کی دیت بھی اتنی ہی سخت ہے جتنی قتلِ عمد کی ہے۔ قتلِ شبہ عمد یہ ہے کہ قاتل کسی ایسی شے سے مارے جس سے عام طور پر آدمی مرتا نہیں ہے جیسے لاٹھی ۔ اس دیت کی مقدار سو اونٹ ہیں جن میں تیس جذعہ ہوں گی، جذعہ سے مراد وہ اونٹنی ہے جو چار سال کی ہو اور پانچویں سال میں داخل ہو چکی ہو، تیس حقہ ہوں گی، حقہ سے مراد وہ اونٹنی ہے جو تین سال کی ہو اور چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہو اور چالیس خلفہ یعنی حاملہ اونٹنیاں ہوں گی۔ قتلِ شبہ عمد عموماً بنا کسی دشمنی و عداوت اور بغیر اسلحہ اٹھائے ہوتا ہے۔شیطان اپنے وسوسوں کے ذریعے بسا اوقات لوگوں کے مابین ہنسی مذاق ہی میں لڑائی کرا دیتا ہے جس سے باہم مار پیٹ اور قتل واقع ہو جاتا ہے جس کا ارادہ بھی نہیں ہوتا اور یوں لوگوں کے مابین خوں ریزی ہو جاتی ہے۔