+ -

عن أبي بَشير الأنصاري رضي الله عنه:
أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا -وَالنَّاسُ فِي مَبِيتِهِمْ-: «لَا يَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلَادَةٌ مِنْ وَتَرٍ أَوْ قِلَادَةٌ إِلَّا قُطِعَتْ».

[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح مسلم: 2115]
المزيــد ...

ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ:
وہ کسی سفر میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب لوگ اپنی آرام گاہوں میں تھے تو آپ ﷺ نے یہ اعلان کرنے کے لیے ایک قاصد بھیجا کہ: جس اونٹ کی گردن میں بھی تانت کا ہار (گنڈا) یا ہار ہو اسے کاٹ دیا جائے۔

[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح مسلم - 2115]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کسی سفر میں تھے اور لوگ اپنے سونے کی جگہوں میں، جہاں ان کو رات گزارنی تھی، موجود تھے۔ اسی درمیان آپ نے ایک شخص کو اس حکم کے ساتھ بھیجا کہ لوگ اپنے اونٹوں کے گلوں میں باندھی گئی چیزوں کو کاٹ دیں۔ چاہے وہ چیزیں کمان کی تانت کی شکل میں ہوں یا گھنٹی کی شکل میں ہوں یا جوتے وغیرہ کی شکل میں۔ ایسا اس لیے کہ لوگ یہ چیزیں نظر بد لگنے کے ڈر سے باندھا کرتے تھے، لہذا ان کو کاٹ دینے کا حکم دیا۔ کیوں کہ یہ چیزیں کچھ فائدہ نہيں دیتیں۔ نفع اور نقصان کا مالک صرف اللہ ہے۔ اس میں اس کا کوئی شریک نہيں ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جرمنی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية ภาษาคีร์กีซ النيبالية ภาษาโยรูบา الليتوانية الدرية الصربية الصومالية คำแปลภาษากินยาร์วันดา الرومانية المجرية التشيكية الموري ภาษามาลากาซี اطالوی ภาษากันนาดา الولوف البلغارية ภาษาอาเซอร์ไบจาน الأوكرانية الجورجية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. نفع کے حصول اور ضرر سے بچنے کے لیے کمان کے تانت اور قلائد وغیرہ کو باندھنا حرام ہے، کیوں کہ یہ شرک ہے۔
  2. اونٹ کے گلے میں تانت کے علاوہ کسی اور چیز کا پٹہ اور ہار اگر زینت، جانور کو کھینچنے اور اسے باندھنے کے لیے لگایا جائے، تو اس میں کوئی حرج نہيں ہے۔
  3. حسب استطاعت منکر کا انکار ضروری ہے۔
  4. دل کا تعلق بس اللہ سے ہونا چاہیے۔ کسی اور سے نہيں۔
مزید ۔ ۔ ۔