عَنْ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:
كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ عُفَيْرٌ، فَقَالَ: «يَا مُعَاذُ، هَلْ تَدْرِي حَقَّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ، وَمَا حَقُّ العِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟»، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى العِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقَّ العِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لا يُعَذِّبَ مَنْ لا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا»، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلاَ أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ؟ قَالَ: «لا تُبَشِّرْهُمْ، فَيَتَّكِلُوا».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 2856]
المزيــد ...
معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ میں اللہ کے نبی ﷺ کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھا، جس کا نام عفیر تھا۔ اسی دوران آپ نے فرمایا: ’’اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو، اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہ دے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو، ورنہ لوگ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے۔‘‘
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 2856]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے اور اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے۔ بندوں پر اللہ کا حق یہ کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ جب کہ اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ وہ اپنے ان موحد بندوں کو عذاب نہ دے، جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ پھر معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ دے دوں، تاکہ وہ اس فضل وکرم کو جان کر خوش ہوسکیں؟ لیکن آپ نے انھیں ایسا کرنے سے منع کردیا، اس خوف سے کہ کہیں لوگ اس پر توکل کرکے بیٹھ نہ رہیں۔