عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«الْأَعْمَالُ سِتَّةٌ، وَالنَّاسُ أَرْبَعَةٌ، فَمُوجِبَتَانِ، وَمِثْلٌ بِمِثْلٍ، وَحَسَنَةٌ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَحَسَنَةٌ بِسَبْعِ مِائَةٍ، فَأَمَّا الْمُوجِبَتَانِ: فَمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ، وَأَمَّا مِثْلٌ بِمِثْلٍ: فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ حَتَّى يَشْعُرَهَا قَلْبُهُ، وَيَعْلَمَهَا اللهُ مِنْهُ كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، وَمَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً، كُتِبَتْ عَلَيْهِ سَيِّئَةً، وَمَنْ عَمِلَ حَسَنَةً فَبِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَمَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللهِ فَحَسَنَةٌ بِسَبْعِ مِائَةٍ، وَأَمَّا النَّاسُ، فَمُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا مَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الْآخِرَةِ، وَمَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا مُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الْآخِرَةِ، وَمَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ».
[حسن] - [رواه أحمد] - [مسند أحمد: 18900]
المزيــد ...
خُرَیم بن فاتِک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عمل کی چھ قسمیں ہیں اور لوگوں کی چار۔ دو عمل واجب کردینے والے ہیں، ایک عمل کا بدلہ اسی کے مثل ملتا ہے، ایک عمل کا بدلہ دس گنا ملتا ہے اور ایک عمل کا بدلہ سات سو گنا ملتا ہے۔ جہاں تک واجب کردینے والے اعمال کی بات ہے تو وہ یہ ہیں : جو شخص اس حال میں وفات پائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا اور جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ جس عمل کا بدلہ اسی کے مثل ملتا ہے وہ یہ ہے : جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے یہاں تک کہ اس کا دل اس نیکی کو محسوس کرنے لگے اور اللہ اس کے ارادہ کو دیکھ لے، تو اس کے حق میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جو شخص کوئی برائی کرے تو اس کے حق میں وہ برائی لکھ دی جاتی ہے۔ اور جو شخص نیکی کرے تو اسے اس کا دس گنا اجر ملتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرے، اسے سات سو گنا اجر وثواب ملتا ہے۔ جہاں تک لوگوں کی بات ہے تو کسی کو دنیا میں کشادگی ملی ہوئی ہے اور آخرت میں تنگی ملے گی، کسی کو دنیا میں تنگی ملی ہوئی ہے اور آخرت میں فراخی ملے گی، کسی کو دنیا میں تنگی ملی ہوئی ہے اور آخرت میں بھی تنگی ملے گی، جب کہ کسی کو دنیا میں فراخی ملی ہوئی ہے اور آخرت میں بھی فراخی ملے گی"۔
[حَسَنْ] - [اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔] - [مسند أحمد - 18900]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ اعمال کی چھ قسمیں ہیں اور لوگوں کی چار۔ چھ قسم کے اعمال یہ ہیں:
پہلی قسم: جو شخص اس حال میں وفات پائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
دوسری قسم: جو شخص اس حال میں وفات پائے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو اس پر جہنم واجب ہوجاتی ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا۔
یہ دونوں عمل واجب کردینے والے ہیں۔
تیسری قسم: نیت پر مبنی نیکی۔ جو شخص کوئی نیکی کرنے کا ارادہ کرے اور اپنی نیت میں سچا ہو، یہاں تک کہ اپنے دل میں اس نیت کو محسوس کرنے لگے اور اللہ تعالی اس کی اس نیت کو دیکھ لے۔ پھر کسی پیش آمدہ سبب کی بنا پر وہ اس نیکی کو انجام دینے سے قاصر رہے، تو اس کے حق میں پورے طور پر وہ نیکی لکھ دی جاتی ہے-
چوتھی قسم: انجام کردہ گناہ۔ جو شخص کوئی برائی کرے تو اس کے حق میں ایک برائی لکھ دی جاتی ہے۔
ان دونوں عمل کا بدلہ ان کے برابر ملتا ہے۔ بغیر کسی اضافہ کے۔
پانچویں قسم: ایسی نیکی جس کا بدلہ دس گنا ملتا ہے۔ یہ اس شخص کے حق میں ہوتا ہے جو کسی نیکی کا ارادہ کرے اور اسے انجام بھی دے دے۔ اس کے حق میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
چھٹی قسم: ایسی نیکی جس کا بدلہ سات سو گنا ملتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کی راہ میں کوئی مال خرچ کرے، تو اس کے حق میں اس نیکی کے بدلے سات سو گنا اجر وثواب لکھا جاتا ہے۔ یہ بندوں پر اللہ تبارک وتعالی کا خاص فضل واحسان ہے۔
جہاں تک لوگوں کی چار قسموں کی بات ہے، تو وہ یہ ہیں:
پہلی قسم: وہ شخص جسے دنیا میں کشادہ رزق ملتا ہے۔ چنانچہ وہ دنیا کے اندر ناز ونعم کی زندگی گزارتا ہے اور اپنی ساری خواہشات پوری کرتا ہے، لیکن آخرت میں اسے تنگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ اس سے مال دار کافر مراد ہے۔
دوسری قسم: وہ شخص جسے دنیا میں رزق کی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن آخرت میں اسے فراخی ہی فراخی ملے گی اور اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا۔ اس سے مراد فقیر مؤمن ہے۔
تیسری قسم: وہ شخص جسے دنیا وآخرت ہر جگہ تنگی ہی تنگی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے مراد فقیر کافر ہے۔
چوتھی قسم: وہ شخص جسے دنیا وآخرت ہر جگہ فراخی ہی فراخی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے مراد مال دار مؤمن ہے۔