عن أبي مالكٍ الأشعريِّ رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
«الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ تَمْلَآنِ -أَوْ تَمْلَأُ- مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو، فَبَايِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا».
[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 223]
المزيــد ...
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ الحمد لله ترازو کو بھر دیتا ہے، سبحان الله اور الحمد لله آسمانوں سے زمین تک کی وسعت کو بھر دیتے ہیں۔ نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، صبر روشنی ہے۔ قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہے، ہر انسان دن کا آغاز کرتا ہے، تو (کچھ اعمال کے عوض) اپنا سودا کرتا ہے، پھر یا تو خود كو آزاد کرنے والا ہوتا ہے يا خود کو تباہ کرنے والا"۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 223]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث میں بتا رہے ہیں کہ ظاہری طہارت وضو اور غسل سے حاصل ہوتی ہے اور یہ طہارت نماز کے لیے شرط ہے۔ "الحمد لله ترازو کو بھر دیتا ہے۔" الحمد للہ در اصل اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کرنے اور اسے صفات کمال سے متصف کرنے سے عبارت ہے۔ قیامت کے دن اس کلمہ کو ترازو پر وزن کیا جائے گا، تو اس سے عمل کو تولا جانے والا ترازو بھر جائے گا۔ "سبحان الله اور الحمد لله" یہ دونوں کلمات ہر قسم کے نقص سے اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اسے اس کی جلالت شان کے مطابق کمال مطلق کے وصف سے موصوف کرتے ہیں، جس کے ساتھ اس کی محبت اور اس کی تعظیم بھی ہم رکاب ہوتی ہے۔ یہ دونوں کلمات آسمان و زمین کے درمیان کی وسعت کو بھر دیتے ہیں۔ "نماز نور ہے" جو بندے کے دل کو، اس چہرے کو، اس کی قبر کو اور اس کی آخرت کو منور کرنے کا کام کرتی ہے۔ "صدقہ دلیل ہے۔" صدقہ مؤمن کے سچے ایمان والے ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وہ اس منافق سے مختلف ہے، جو صدقہ سے دامن کش رہتا ہے، کیوں کہ وہ اس اجر و ثواب کو سچ نہيں جانتا، جس کا وعدہ صدقہ کرنے والے سے کیا گیا ہے۔ "صبر روشنی ہے۔" صبر نفس کو جزع فزع کرنے اور تقدیر پر ناراضگی ظاہر کرنے سے روکنے کا نام ہے۔ ضیا ایسی روشنی کو کہتے ہیں، جس کے ساتھ حرارت اور جلانے کے اوصاف پائے جائیں۔ جیسے کہ سورج کی روشنی۔ صبر کو ضیا اس لیے کہا گیا ہے کہ صبر کرنا ایک مشکل کام ہے اور اس کے لیے نفس سے لڑنے اور اسے اس کی خواہشات سے روکنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب انسان صبر سے کام لیتا ہے، تو اس کی راہیں روشن رہتی ہیں اور وہ صحیح راستے پر گامزن رہتا ہے۔ یہاں صبر سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت گزاری پر گام زن رہا جائے، اس کی نافرمانی سے اجتناب کیا جائے اور دنیا میں سامنے آنے والے مصائب اور مشکلات کا مقابلہ پامردی کے ساتھ کیا جائے۔ "قرآن تمہارے حق میں دلیل ہے۔" قرآن انسان کے حق میں دلیل اس وقت ہوتا ہے، جب وہ اس کی تلاوت کرے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرے۔"یا پھر تمہارے خلاف دلیل ہے۔" قرآن انسان کے خلاف دلیل اس وقت ہوتا ہے، جب وہ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے اور اس کی تلاوت کرنے سے گریز کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ تمام لوگ جد وجہد کرتے، زمین میں پھیل جاتے اور نیند سے بیدار ہوکر اپنے مختلف مشاغل کی غرض سے گھروں سے نکل جاتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہتے ہوئے اپنی جان کو جہنم سے آزاد کر لیتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ اس راہ سے بھٹک کر گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہيں، تو اللہ ان کو جہنم میں داخل کرکے ہلاک کردیتا ہے۔