عن أنس وأبي هريرة رضي الله عنهما مرفوعاً: «لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالِدِه، والناس أجمعين».
[صحيح] - [حديث أنس -رضي الله عنه-: متفق عليه. حديث أبي هريرة -رضي الله عنه-: رواه البخاري]
المزيــد ...

انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“۔
صحیح - اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

شرح

رسول اللہ ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ مسلمان کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا اور نہ اسے وہ ایمان حاصل ہوتا ہے، جس کی بنا پر وہ بغیر عذاب جنت میں داخل ہو جائے گا، جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کو اپنے بچوں، اپنے والدین اور تمام انسانوں کے محبت پر مقدم نہ رکھے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کے معنی ہیں اللہ کی محبت؛ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کے پیام بر اور اس کے دین کی طرف راہ نمائی کرنے والے ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت صرف اسی وقت درست ہوتی ہے، جب شریعت کے احکامات کو بجا لایا جائے اور اس کی حرام کردہ اشیا سے اجتناب کیا جائے۔ صرف قصیدے پڑھنا، جلسے اور محفلیں منعقد کرنا اور نغمے پڑھنا کافی نہیں ہے۔۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جرمنی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اللہ کے رسول ﷺ سے محبت رکھنا اور اس کو تمام مخلوق کی محبت پر فوقیت دینا واجب ہے۔
  2. اعمال ایمان میں سے ہیں، کیوں کہ محبت دل کے عمل کا نام ہے اور اس شخص سے ایمان کی نفی کی گئی ہے، جس کے نزدیک رسولﷺ کی محبت (حدیث میں) ذکر کردہ چیزوں کی محبت سے بڑھ کر نہ ہو۔
  3. ایمان کی نفی سے کسی شخص کے دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کی دلیل نہیں ملتی۔
  4. سچے ایمان کے لیے ضروری ہے کہ اس کا اثر ایمان رکھنے والے شخص پرظاہر ہو۔
  5. اللہ کے رسولﷺ کی محبت کو جان، اولاد، والد اور تمام لوگوں پر مقدّم رکھنا واجب ہے۔
  6. اللہ کے رسولﷺ پرجان و مال سے فدا ہونا، کیوںکہ آپ ﷺ کی محبّت کو اپنے نفس و مال پر مقدّم رکھنا ضروری ہے۔
  7. انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنّت کی حمایت کرے اور اس کے لیے وہ اپنی جان و مال اور پوری طاقت لگا دے، کیوںکہ یہ اللہ کے رسولﷺ سے کمال محبت میں داخل ہے۔ اسی لیے بعض اہل علم نے اللہ کے قول: {إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ} میں کہا ہے کہ اس سے مراد آپ سے نفرت کرنے والا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح اس سے مراد وہ شخص بھی ہے، جو آپ کی شریعت سے بغض رکھے۔ اس طرح کا آدمی خیر و بھلائی سے محروم ہو جاتا ہے۔
  8. اس محبت کا جائز ہونا جو شفقت و اکرام اور تعظیم کے طور پر ہو، کیوںکہ آپ کا فرمان ہے: "أحب إليه من وَلَدِه ووالده..." یعنی اس کے نزدیک اس کی اولاد اور اس کے والدین سے زیادہ محبوب ہو جاؤں۔ یہاں آپ نے اصل محبت کو ثابت کیا ہے اور یہ ایک طبعی معاملہ ہے، جس کا کوئی منکر نہیں ہے۔
  9. اللہ کے رسولﷺکی بات کو تمام لوگوں کی بات پر مقدم رکھنا واجب ہے، کیوںکہ آپ ﷺ کے ہر ایک سے زیادہ محبوب ہونے کا لازمی معنی یہ ہے کہ آپ کا قول تمام لوگوں کے قول پر مقدّم ہو، یہاں تک کہ تمہاری جان پر بھی۔