عن ابن عباس رضي الله عنهما
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: قَالَ: «إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ، ثُمَّ بَيَّنَ ذَلِكَ، فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ، إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 6491]
المزيــد ...
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں اور آپ اپنے رب پاک سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دی ہیں اور انھیں صاف صاف بیان کر دیا ہے۔ چنانچہ جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کر سکا، تو اس کےکھاتے میں اللہ تعالی اپنے ہاں ایک مکمل نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر اس نے ارادہ کرنے کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنے یہاں دس نیکیوں سے سات سو گنا تک، بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اس کے برخلاف جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کیا، تو اللہ تعالی اپنے یہاں اسے ایک پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر ارادہ کرنے کے بعد اس نے اس کا ارتکاب بھی کر لیا، تو اللہ تعالی اسے صرف ایک برائی ہی لکھتا ہے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 6491]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کر دی اور پھر فرشتوں کو بتایا کہ ان کو کیسے لکھا جائے۔
لہذا جس نے کوئی اچھا کام کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور اسے کر نہ کر سکا، تب بھی اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اگر اسے کر لیا، تو اس کے لیے دس سے سات سو، بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ دراصل نیکی میں یہ اضافہ دل کے اندر موجود اخلاص اور اس کام سے دوسروں کو ہونے والے فائدے کے مطابق ہوتا ہے۔
اس کے برخلاف جس نے کوئی برا کام کرنے کا پختہ ارادہ کیا اور پھر اسے اللہ کے لیے چھوڑ دیا، اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ لیکن اگر اسے دلچسپی نہ ہو نے کی وجہ سے چھوڑا اور اس کے اسباب پر بھی ہاتھ نہ لگایا، تو کچھ نہیں لکھا جاتا۔ جب کہ اسے قدرت نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑا، تو اس کی نیت کو اس کے خلاف لکھا جاتا ہے۔ اور اگر اسے کر لیا تو اس کے کھاتے میں ایک گناہ لکھا جاتا ہے۔