عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما عن رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- فيما يرويه عن ربه -تبارك وتعالى- قال: «إن الله كَتَبَ الحسناتِ والسيئاتِ ثم بَيَّنَ ذلك، فمَن هَمَّ بحسنةٍ فَلم يعمَلها كَتبها الله عنده حسنةً كاملةً، وإن هَمَّ بها فعمِلها كتبها اللهُ عندَه عشرَ حسناتٍ إلى سَبعِمائةِ ضِعْفٍ إلى أضعافٍ كثيرةٍ، وإن هَمَّ بسيئةٍ فلم يعملها كتبها الله عنده حسنة كاملة، وإن هَمَّ بها فعمِلها كتبها اللهُ سيئةً واحدةً». زاد مسلم: «ولا يَهْلِكُ على اللهِ إلا هَالِكٌ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے پروردگار سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دی ہیں اور انھیں صاف صاف بیان کر دیا ہے۔ چنانچہ جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کر سکا، تو اس کےکھاتے میں اللہ تعالی اپنے ہاں ایک مکمل نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر اس نے ارادہ کرنے کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنے یہاں دس نیکیوں سے ساتھ سو گنا تک، بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اور اگر اس نے کسی برائی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کیا، تو اللہ تعالی اپنے یہاں اسے ایک پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر ارادہ کرنے کے بعد اس نے اس کا ارتکاب بھی کر لیا، تو اللہ تعالی اسے صرف ایک برائی ہی لکھتا ہے"c2">“۔ امام مسلم کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: ”اللہ کے یہاں وہی ہلاک ہو گا، جو (اپنی برائیوں کی بنا پر) ہلاک ہونے کا مستحق ہو گا“۔
صحیح - متفق علیہ

شرح

اس عظیم حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ نیکی کرنے کی خواہش کے ساتھ اس کا ارادہ کرنے پر ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے، اگرچہ اسے عملی جامہ نہ پہنایا جائے اور اگر نیکی کر لی جائے، تو پھر اسے دس سے لے کر کئی گنا زیادہ تک بڑھا کر لکھاجاتا ہے۔ جو شخص برائی کا ارادہ کرنے کے بعد اللہ کی خاطر اسے چھوڑ دیتا ہے، اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جو برائی کا ارتکاب کر لیتا ہے، اس کے کھاتے میں ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے۔ جو شخص برائی کا ارادہ کرنے کے بعد اسے چھوڑ دے، اس کے لیے کچھ بھی نہیں لکھا جاتا۔ یہ سب اللہ عز و جل کی رحمت کی وسعت کی دلیل ہے کہ اللہ نے لوگوں پر اپنا یہ بے پناہ فضل کیا اور انھیں خیر كثىر سے نوازا۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جرمنی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اس امّت پر اللہ کے عظیم احسان کا تذکرہ، کیوں کہ اگر حدیث میں بیان کردہ رحمت نہ ہوتی، تو بڑی مصیبت کا سامنا ہوتا، اس لیے کہ بندوں کے گناہ نیکیوں کی بہ نسبت زیادہ ہوا کرتے ہیں۔
  2. بندوں کی نگرانی پر متعین فرشتے دلوں کے اعمال بھی لکھتےہیں، جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فرشتے صرف ظاہری اعمال ہی لکھتے ہیں۔
  3. نیکیوں اور گناہوں کا لکھا جانا، ان کے واقع ہونے اور ان کی جزا یا سزا ملنے کے اعتبار سے۔ کیوں کہ آپ کا فرمان ہے : "إن الله كتب الحسنات والسيئات"یعنی اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور گناہ لکھ دیے ہیں۔
  4. سارے اچھے اور برے کام طے ہو چکے ہيں، لکھے جا چکے ہیں اور ثبت ہو چکے ہیں۔ بندے اپنے ارادے سے لکھے ہوئے کے مطابق کام کرتے ہیں۔
  5. اللہ عزوجل کے افعال کا اثبات، کیوں کہ آپ کا فرمان ہے: "كَتَبَ" اس نے لکھ دیا ہے۔ اس سلسلہ میں خواہ ہم یہ کہیں کہ اس نے لکھنے کا حکم دیا ہے یا یہ کہیں کہ اللہ عزّوجل نے خود لکھ رکھا ہے، جیسا کہ اس سلسلے میں متعدد حدیثیں وارد ہیں۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: "وکتب التوراۃ بیدہ" یعنی اس نے تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ یہاں نہ مثال پیش کی جائے گی اور نہ تاویل کی جائے گی۔
  6. اللہ عزوجل کی مخلوق پر اس قدر توجہ کہ اس نے ان کی نیکیاں اور گناہ بھی قدری اور شرعی طور پر لکھ رکھے ہیں۔
  7. اعمال میں نیت کا اعتبار اور اس کا اثر۔
  8. اجمال کے بعد تفصیل کا ذکر بلاغت کے ضمن میں آتا ہے۔
  9. نیکی کا ارادہ کرنے والے کے لیے ایک کامل نیکی لکھی جاتی ہے۔
  10. اللہ عزّوجل کے فضل و مہربانی اور احسان کا تذکرہ کہ جو شخص کسی نیکی کا پختہ ارادہ کرے اور اسے انجام نہ دے، اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے اور جو کسی برائی کا پختہ ارادہ کرے اور اسے اللہ عزوجل کی خاطر ترک کر دے، اس کے لیے بھی ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔ یہاں 'الھمّ' سے مراد پختہ ارادہ ہے نہ کہ صرف دل کا خیال۔
مزید ۔ ۔ ۔