+ -

عن سالم بن أبي الجَعْدِ قال: قال رجل: ليتني صَلَّيتُ فاسترحْتُ، فكأنّهم عابُوا ذلك عليه، فقال: سمعتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم يقول:
«يا بلالُ، أقِمِ الصَّلاةَ، أرِحْنا بها».

[صحيح] - [رواه أبو داود] - [سنن أبي داود: 4985]
المزيــد ...

سالم بن ابو جعد سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ ایک شخص نے کہا: کاش میں نماز پڑھتا اور راحت حاصل کرتا، تو صحابہ نے ایک طرح سے ان کی بات کو برا جانا۔ لہذا اس نے بتایا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
"اے بلال! نماز قائم کرو، اس کے ذریعے مجھے راحت پہنچاؤ۔"

صحیح - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

شرح

ایک صحابی نے کہا : کاش میں نماز پڑھتا اور راحت حاصل کرتا، تو ان کے آس پاس کے لوگوں نے ایک طرح سے ان کی اس بات کو برا جانا، لہذا انھوں نے بتایا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے ہوئے سنا: اے بلال! نماز کے لیے اذان دو اور جماعت کھڑی کرو، تاکہ ہم اس کے ذریعے راحت حاصل کریں۔ ایسا اس لیے کہ نماز میں اللہ سے سرگوشیاں ہوتی ہیں اور اس سے قلب و روح کو راحت ملتی ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان ترکی زبان سنہالی ہندوستانی ویتنامی ہاؤسا مليالم تلگو سواحلی بورمی تھائی پشتو آسامی السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية القيرقيزية النيبالية اليوروبا الليتوانية الدرية الصومالية الكينياروندا التشيكية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. نماز سے راحتِ قلب حاصل ہوتی ہے، کیوں کہ نماز اللہ تعالی سے سرگوشی کرنے کا ذریعہ ہے۔
  2. عبادت میں کوتاہی کرنے والے کی تردید۔
  3. جس نے اپنا فرض ادا کر کے اپنا سر ہلکا کر لیا، اسے اس سے ایک طرح کی راحت ملتی ہے اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔
مزید ۔ ۔ ۔