عن أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رضي الله عنه قال:
بينما نحن جلوس مع النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد دخل رجل على جمل، فأناخه في المسجد ثم عقله، ثم قال لهم: أيكم محمد؟ والنبي صلى الله عليه وسلم متكئ بين ظهرانيهم، فقلنا: هذا الرجل الأبيض المتكئ. فقال له الرجل: يا ابن عبد المطلب فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: «قد أجبتك». فقال الرجل للنبي صلى الله عليه وسلم: إني سائلك فمشدد عليك في المسألة، فلا تجد علي في نفسك؟ فقال: «سل عما بدا لك» فقال: أسألك بربك ورب من قبلك، آلله أرسلك إلى الناس كلهم؟ فقال: «اللهم نعم». قال: أنشدك بالله، آلله أمرك أن نصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة؟ قال: «اللهم نعم». قال: أنشدك بالله، آلله أمرك أن نصوم هذا الشهر من السنة؟ قال: «اللهم نعم». قال: أنشدك بالله، آلله أمرك أن تأخذ هذه الصدقة من أغنيائنا فتقسمها على فقرائنا؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اللهم نعم». فقال الرجل: آمنت بما جئت به، وأنا رسول من ورائي من قومي، وأنا ضمام بن ثعلبة أخو بني سعد بن بكر.

[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں :
ایک مرتبہ ہم مسجد میں نبیﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اپنے اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا: تم میں محمد (ﷺ) کون ہیں؟ نبی ﷺ اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید رنگ والے تکیہ لگائے بیٹھے شخص۔ چنانچہ وہ آپ سے کہنے لگا: اے فرزند عبدالمطلب! نبیﷺ نے فرمایا: ’’(پوچھ) میں تجھے جواب دیتا ہوں۔‘‘ اس نے نبیﷺ سے کہا: میں آپ سے کچھ دریافت کرنے والا ہوں اور اس میں سختی کروں گا، آپ دل میں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’(کوئی بات نہیں) جو چاہے پوچھ!‘‘ اس نے پوچھا: میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے مالک کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر اس نے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ شاہد ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر کہنے لگا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے امیروں سے صدقہ لے کر ہمارے غریبوں پر تقسیم کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا: میں اس (شریعت) پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں۔ میں اپنی قوم کا نمائندہ بن کر حاضر خدمت ہوا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔

صحیح - اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

شرح

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: دریں اثنا کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص اونٹ پر سوار ہوکر داخل ہوا اور اونٹ کو بٹھاکر باندھ دیا۔ پھر صحابۂ کرام سے دریافت کیا: تم میں محمد کون ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے درمیان تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید رنگ والے شخص جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ آپ سے اس شخص نے عرض کیا: اے عبد المطلب کے فرزند! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہا: میں نے تمہاری بات سن لی۔ سوال کرو میں جواب دوں گا۔ اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں آپ سے کچھ سوالات کرنے والا ہوں اور سوال کرنے میں سخت لہجہ اختیار کروں گا۔ اس لیے آپ دل میں مجھ سے ناراض نہ ہوں۔ یعنی آپ مجھ پر غصہ نہ کریں اور نہ میرے سوال سے تنگ ہوں۔ آپ نے عرض کیا: جو چاہے پوچھو۔ اس نے کہا: میں آپ کو آپ کے رب اور آپ سے پہلے لوگوں کے رب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے؟ آپ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر اس نے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ یعنی فرض نمازیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ شاہد ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں رمضان مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر کہنے لگا: میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے امیروں سے صدقہ لے کر ہمارے فقیروں پر تقسیم کریں؟ یعنی زکاۃ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ ضمام نے بالآخر اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ وہ اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دیں گے۔ پھر اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ضمام بن ثعلبہ ہیں اور قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتے ہیں۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الدرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تواضع معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ وہ شخص آپ (کی سادگی کے سبب) آپ کے درمیان اور صحابہ کے درمیان تفریق نہیں کر سکا۔
  2. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق، سائل کا جواب دینے میں آپ کی نرمی وشفقت اور یہ پیغام کہ جواب دینے کا طریقہ اگر اچھا ہو تو یہ دعوت کی قبولیت کا سبب بنتا ہے۔
  3. سفید اور سرخ رنگ اور لمبے اور چھوٹے قد اور اس طرح کے دیگر ایسے اوصاف بیان کرکے انسان کی شناخت کرنا جائز ہے، جن سے عیب جوئی مقصود نہ ہو، بشرطے کہ ایسا اس انسان پر ناگوار نہ گزرے۔
  4. ضرورت کے پیش نظر کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے۔
  5. اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں آیا ہے، کیوں کہ ممکن ہے کہ اس وقت تک حج فرض نہ ہوا ہو۔
  6. صحابۂ کرام کے اندر لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کی شدید تڑپ پائی جاتی تھی۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شخص اسلام لاتے ہی اپنی قوم کو دعوت دینے کی فکر کرنے لگا۔
زمرے
مزید ۔ ۔ ۔