+ -

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«إِذَا لَقِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَإِنْ حَالَتْ بَيْنَهُمَا شَجَرَةٌ أَوْ جِدَارٌ أَوْ حَجَرٌ ثُمَّ لَقِيَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ أَيْضًا».

[صحيح] - [رواه أبو داود] - [سنن أبي داود: 5200]
المزيــد ...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے، تو اسے سلام کرے۔ پھر اگر ان دونوں کے درمیان درخت ، دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور وہ اس سے (دوبارہ) ملے، تو پھر اسے سلام کرے۔"

[صحیح] - [اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔] - [سنن أبي داود - 5200]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس بات کی ترغیب دے رہے ہیں کہ ایک مسلمان جب بھی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے۔ حتی کہ اگر دونوں ساتھ چل رہے ہوں اور اسی دوران بیچ میں پیڑ، دیوار اور کوئی بڑا پتھر وغیرہ آ جائے، تو دوبارہ ملتے وقت پھر سے اسے سلام کرے۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم سواحلی تھائی جرمنی پشتو آسامی الأمهرية الهولندية الغوجاراتية ภาษาคีร์กีซ النيبالية الرومانية ภาษามาลากาซี คำแปลภาษาโอโรโม
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. سلام کو عام کرنا اور ہر تغیر حال کے وقت پھر سے سلام کرنا مستحب ہے۔
  2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، سلام کی سنت کو عام کرنے کا بے حد اہتمام کیا کرتے تھے، کیوں کہ اس سے مسلمانوں کے درمیان محبت والفت پیدا ہوتی ہے۔
  3. سلام کرنے سے مراد "السلام علیکم" یا "السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ" کہنا ہے۔ اس کے اندر مصافحہ، جو پہلی بار ملتے وقت کیا جاتا ہے، شامل نہيں ہے۔
  4. سلام دعا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے لیے دعا کریں۔ خواہ بار بار ہی کیوں نہ ملاقات ہو۔