عن أبي هريرة رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:«حقُّ المُسلمِ على المُسلمِ خمسٌّ: ردُّ السلام، وعِيَادَةُ المريض، واتباع الجنائز، وإجابة الدَّعوة، وتَشميتُ العاطِس».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا ،جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا‘‘۔
صحیح - متفق علیہ

شرح

اس حدیث میں ان حقوق میں سے کچھ کا بیان ہے جو مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر واجب ہوتے ہیں۔ مسلمان کے اپنے بھائی پر بہت سے حقوق لازم ہوتے ہیں لیکن نبی ﷺ بعض اوقات کچھ معین باتوں کو ان پر خصوصی توجہ دینے اور ان كو شمار کرنے کے لیے صرف انہی کا ذکر فرما دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا ذکر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا۔ یعنی جب آپ کو کوئی شخص سلام کرے توآپ اس کے سلام کا جواب دیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: ایک یہ کہ جب تم اس سے ملو تو اس سے سلام کرو"c2">“۔ جو شخص مسلمانوں کے سلسلے میں ان حقوق کی پاسداری کرے گا وہ دیگر حقوق کو بدرجۂ اولی پورا کرے گا۔ اس طرح سے وہ ان واجبات و حقوق کو پورا کرے گا جن میں بہت زیادہ بھلائی مضمر ہے اور بہت بڑا اجر ہے بشرطیکہ وہ اللہ سے اجر کا امیدوار رہے۔ ان حقوق میں سے سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ”جب تم دوسرے مسلمان سے ملو تو اسے سلام کرو"c2">“۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”سلام کا جواب دینا"c2">“۔ دوسرا حق: جب کوئی شخص بیمار ہو کر اپنے گھر میں منعزل ہوجائے تو اس کی تیمار داری کرنا۔ اس کا اپنے مسلمانوں بھائیوں پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس کی زیارت کریں۔ تیسرا حق: جنازے کے پیچھے چلنا اور ان کے ساتھ ساتھ جانا ہے۔مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے گھر سے لے کر جنازہ گاہ تک اس کے جنازے کے ساتھ ساتھ جائے چاہے جنازہ گاہ کوئی مسجد ہو یا پھر کوئی اور مقام اور وہاں سے قبرستان جائے۔ چوتھا حق: دعوت قبول کرنا ہے ۔ مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ جب وہ اسے دعوت دے تو وہ اس کی دعوت کو قبول کرے۔پانچواں حق: چھینک کا جواب دینا ہے۔ کیونکہ چھینک آنا اللہ کی نعمت ہے اس لیے کہ اس سے انسان کے اجزائے بدن میں جمع شدہ ہوا خارج ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس کے نکلنے کے راستے کو کھول دیتا ہے اور یوں چھینک لینے والے کو راحت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے لیے مشروع ہے کہ وہ اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے اور اس کے بھائی کے لیے یہ مشروع ہے کہ وہ اس کے جواب میں ”يَرْحَمُكَ اللَّهُ"c2">“ کہے اور اسے یہ حکم دیا کہ وہ اس کے جواب میں یہ کہے ”يَهْدِيكُمْ اللَّه وَيُصْلِح بَالكُمْ“۔ جو اللہ کی حمد بیان نہیں کرتا وہ تشمیت (یرحمک اللہ کہہ کر چھینک کا جواب دینا) کا بھی حق دار نہیں ہے اور اسے چاہیے کہ وہ کسی اور کے بجائے بس اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جرمنی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الدرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حق ہیں، ان کا بیان۔ ان میں سے کچھ حقوق واجب ہیں اور کچھ مندوب۔ ایسا حالات اور افراد کے مطابق ہوتا ہے۔
  2. جس سے سلام کیا جارہا ہے، وہ اگر تنہا ہے، تو سلام کا جواب دینا فرض عین ہے اور اگر ایک سے زیادہ لوگ ہیں، تو فرض کفایہ ہے۔
  3. مریض کی تیمارداری کرنا فرض کفایہ ہے۔
  4. جنازہ کے ساتھ چلنا فرض کفایہ ہے۔ اسے مراد جنازے کو اس کی یا نماز کی جگہ سے دفن کی جگہ تک لے جانا ہے۔
  5. شادی کے ولیمے کی دعوت، اگر فقہ کی کتابوں میں بیان کی گئی شرطوں کے مطابق ہو تو قبول کرنا واجب ہے۔ جب کہ تقریبات کی دعوت قبول کرنا سنت مؤکدہ ہے۔
  6. چھینکنے والا جب الحمد للہ کہے تو اس کا جوا ب دینا، کچھ علما کے نزدیک اگر سننے والا اکیلا ہے تو فرض عین ہے اور اگر ایک سے زیادہ لوگ ہیں، تو فرض کفایہ ہے۔ جب کہ کچھ دوسرے علما کا کہنا ہے یہ مستحب ہے۔
  7. اسلام کی اس عظمت کا بیان کہ وہ مسلمانوں کے درمیان محبت و بھائی چارہ کی کڑی کو مضبوط کرنے پر زور دیتا ہے۔
  8. جب امام خطبہ دے رہا ہو، تو چھینک اور سلام کا جواب دینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ دونوں کلام کے دائرے میں آتے ہیں اور خطبے کے دوران گفتگو کرنا حرام ہے۔