عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«كَتَبَ اللهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ».

[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
"اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں تحریر فرما دیں تھیں"۔ فرمایا : اوراس وقت اس کا عرش پانی پر تھا"۔

صحیح - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل تمام مخلوقات کی تقدیریں، مثلا موت و حیات اور روزی وغیرہ کو تفصیل کے ساتھ لوح محفوظ میں تحریر کردی تھیں۔ یہ تمام باتیں اللہ عز وجل کی قضا و قدر کے مطابق واقع ہوکر رہیں گی۔ چناں چہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ اللہ تعالی کی قضا و قدر کے مطابق ہو رہا ہے۔ چنانچہ بندے کو جو کچھ حاصل ہوا وہ اس سے چوکنے والا نہیں تھا اور جو اس سے چوک گیا وہ اسے حاصل ہونے والا نہیں تھا۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جرمنی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الدرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. قضا وقدر پر ایمان لانا واجب ہے۔
  2. تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی تمام چیزوں سے واقف ہے، اس نے ان چیزوں کو لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کی مشیئت سے ہو رہا ہے اور وہی ان کو پیدا بھی کرتا ہے۔
  3. اس بات پر ایمان کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پہلے ہی تقدیریں لکھی جا چکی ہیں، انسان کے اندر رضا اور تسلیم کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
  4. آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے قبل رحمن کا عرش پانی پر تھا۔
مزید ۔ ۔ ۔