عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ: «أَنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا وَأَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَهُ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَهُ، ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ المَلَكُ، فَيُؤْذَنُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَيَكْتُبُ: رِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَعَمَلَهُ وَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ حَتَّى لاَ يَكُونُ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُ النَّارَ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 7454]
المزيــد ...
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہيں :
رسول اللہ ﷺ، جو صادق اور مصدوق ہیں، نے بیان فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کی پیدائش کی بنیاد اس کی ماں کے پیٹ میں (نطفہ امتزاج کی شکل میں) چالیس دن اور چالیس رات تک رہتی ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں تک گاڑھے اور جامد خون کی صورت میں رہتی ہے۔ اس کے بعد اتنے ہی دنوں تک گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے۔ وہ اس کی روزی، اس کی موت، اس کا عمل و کردار، اور اس کا نیک بخت یا بدبخت ہونا لکھتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ کوئی شخص زندگی بھر اہل جنت کے عمل کرتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو لکھی ہوئی تقدیر اس کے آگے آجاتی ہے اور وہ اہل جہنم کے عمل کرکے جہنم میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص زندگی بھر اہل جہنم کے عمل کرتا ہے اور جب اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو لکھی ہوئی تقدیر اس کے آگے آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے عمل کرکے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 7454]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا، جو کہ اپنے قول میں سچے ہیں اور مصدوق بھی ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو صادق قرار دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے ہرایک کی پیدائش کی بنیاد اس کی ماں کے پیٹ میں (نطفہ امتزاج کی شکل میں) جمع کی جاتی ہے، بایں طور کہ انسان جب اپنی بیوی سے جماع کرتا ہے تو اس کی بکھری ہوئی منی عورت کے شکم میں چالیس دن تک نطفے کی شکل میں جمع کی جاتی ہے۔ پھر وہ نطفہ علقہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یعنی گاڑھے اور جامد خون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ دوسری چالیسویں دن تک یہی شکل رہتی ہے۔ پھر وہ مضغہ بن جاتا ہے۔ یعنی گوشت کے ٹکڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ گوشت کا اتنا بڑا ٹکڑا، جسے ایک بار میں چبایا جا سکے۔ تیسرے چالیس دنوں میں یہی شکل رہتی ہے۔ پھر اس کے پاس اللہ تعالی فرشتہ بھیجتا ہے، جو تیسرے چالیسویں دن ختم ہونے کے بعد اس میں روح پھونکتا ہے۔ اس فرشتہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ چار چیزیں لکھ دے۔ اس کا رزق یعنی وہ اپنی عمر میں کس قدر نعمتیں حاصل کرنے والا ہے، لکھا جاتا ہے۔ اس کی موت لکھی جاتی ہے۔ یعنی دنیا میں وہ کتنی مدت تک رہنے والا ہے۔ اس کا عمل لکھا جاتا ہے کہ وہ کیا عمل کرے گا اور یہ کہ وہ بد بخت ہوگا یا خوش بخت؟ پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر بتایا کہ انسان بظاہر لوگوں کی نظر میں جنتیوں کا عمل کرتا رہتا ہے اور نیک عمل میں منہمک رہتا ہے، وہ اسی حال میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ یعنی جنت تک پہنچنے میں صرف اتنی ہی مسافت رہ جاتی ہے جتنی ایک ہاتھ زمین کی ہوتی ہے کہ اچانک لکھی ہوئی تقدیر اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ جہنمیوں کا عمل کرنے لگتا ہے اور اس کا خاتمہ اسی عمل پر ہوتا ہے۔ چناں چہ وہ جہنم رسید ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ عمل کی قبولیت کے لیے شرط ہے کہ انسان اس پر ثابت قدم رہے اور بدلے نہیں۔ جب کہ دوسرا انسان وہ ہے جو جہنمیوں کا عمل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جہنم میں داخل ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ گویا اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ زمین کا فاصلہ رہ گیا ہو۔ پھر اس پر لکھی ہوئی تقدیر غالب آجاتی ہے۔ چنانچہ وہ جنتیوں کا عمل کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔