عن أبي موسى الأشعري رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا نِكاح إلا بِوَلِيّ».
[صحيح] - [رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه والدارمي وأحمد]
المزيــد ...

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے“۔
صحیح - اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔

شرح

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عقدِ نکاح میں ولی کا اعتبار ہوگا اور نکاح کی صحت کے لیے ولی کا ہونا شرط ہے۔ چنانچہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ ولی عقدِ نکاح کی تولیت کرے گا۔ البتہ ولی میں یہ شروط ہونے چاہییں: مکلف ہو، مرد ہو، مصالحِ نکاح سے با خبر ہو اور ولی و مولیٰ (جس کا وہ ولی ہے) کا دین میں ایک ہو۔ پس جو ان صفات سے متصف نہ ہو، وہ نکاح میں ولایت کا اہل نہیں ہوگا۔ اگر کوئی مشکل پیش آجائے، تو عورت کا ولی سلطان (حاکم وقت) ہوگا۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الدرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. نکاح کی صحت کے لیے ولی کا ہونا شرط ہے۔
  2. ولی لوگوں میں سے عورت کا سب سے قریبی شخص ہوتاہے، اسی لیے قریبی ولی ہونے کی صورت میں دور کا ولی اس کا نکاح نہیں کرا سکتا۔
  3. ولی کے بغیر نکاح فاسد ہے۔ ایسا نکاح شرعی نکاح نہیں سمجھا جائے گا اور اسے حاکم کے پاس یا شرعی طلاق کے ذریعے فسخ کرانا ضروری ہو گا۔
  4. جب کسی عورت کے رشتہ داروں میں سے یا اس کے موالی میں سے کوئی ولی نہ ہو، تو اس کا ولی امام یا اس کا نائب ہوگا، کیوںکہ سلطان ان لوگوں کا ولی ہے، جن کا کوئی ولی نہ ہو۔
  5. ولی کے لیے صاحب رشد و بھلائی والا ہونا ضروری ہے، کیوں کہ عورت کے مصالح کا حصول نیک ولی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
مزید ۔ ۔ ۔