عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنينَ رَضِي اللهُ عنْها قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ -ثَلَاثَ مَرَّاتٍ- فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا، فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ».
[صحيح] - [رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه وأحمد] - [سنن أبي داود: 2083]
المزيــد ...
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو عورت اپنے اولیا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے“۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ بات تین بار فرمائی۔ (پھر فرمایا:) ”اگر مرد نے ایسی عورت سے دخول کرلیا، تو اس کے عوض میں عورت کے لیے مہر ہے۔ اگر ولی آپس میں اختلاف کریں، تو حاکم وقت اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہ ہو"۔
[صحیح] - - [سنن أبي داود - 2083]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے خبردار کیا ہے کہ کوئی عورت اولیا کی اجازت کے بغیر شادی کر لے۔ آپ نے اس طرح کے نکاح کو باطل کہا ہے اور اس جملے کو تین بار دوہرایا ہے۔ گویا کہ یہ نکاح ہوا ہی نہیں۔
اگر عورت کے ولی کی اجازت کے بغیر اس سے نکاح کرنے والے شخص نے اس سے دخول کر لیا، توچوں کہ اس سے جماع کرلیا ہے اس لئے اس عورت کو پورا مہر ملے گا۔
اس کے بعد فرمایا کہ اگر ولایت عقد کے سلسلے میں اولیا کے درمیان اختلاف ہو جائے اور سارے اولیا ایک ہی مرتبے کے ہوں، تو اس کا کیا ہوا عقد درست ہوگا جو پہلے عقد کرائے، جب اس نے نکاح عورت کے مصالح کا خیال رکھتے ہوئے کرایا ہو۔ اگر ولی نکاح کرانے سے منع کر دے، تو ایسا مانا جائے گا کہ اس کا ولی نہيں ہے۔ ایسے میں سلطان اور اس کا قائم مقام جیسے قاضی وغیرہ اس کے ولی ہوں گے۔ لیکن ولی کی موجودگی میں سلطان کو حق ولایت حاصل نہيں ہو سکتا۔