+ -

عَنِ أَبِي مُوسَى رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ:
«رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي كُلِّهِ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطَايَايَ، وَعَمْدِي وَجَهْلِي وَهَزْلِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ المُقَدِّمُ وَأَنْتَ المُؤَخِّرُ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ».

[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 6398]
المزيــد ...

ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا کیا کرتے تھے :
"اے اللہ! میرے گناہ، میری نادانی، میرے تمام کاموں میں میرے حد سے تجاوز کرنے کو اور ہر اس بات کو، جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، معاف فرما۔ اے اللہ! میرے گناہوں، مجھ سے سنجیدگی کے ساتھ ہونے والے کاموں، انجانے میں ہونے والے کاموں اور مذاق میں ہونے والے کاموں کو معاف فرما۔ ان میں سے ہر طرح کے کام مجھ سے ہوئے ہیں۔ اے اللہ! میرے اگلے اور پچھلے گناہ، رازداری کے ساتھ اور علانیہ ہونے والے گناہ معاف کر دے۔ تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تو ہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے"۔

[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 6398]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک جامع ترین دعا یہ ہے :
"رب اغفر لي خطيئتي" اے اللہ! میرے گناہوں کى مغفرت فرما۔ "وجهلي" انجانے میں ہونے والی کوتاہیاں کى بھی مغفرت فرما۔
"وإسرافي في أمري كله" اپنے تمام کاموں میں رہ جانے والی کوتاہیاں اور حد سے گزرنے کی کیفیتوں کى بھی مغفرت فرما۔
"وما أنت أعلم به مني" ان گناہوں کى بھی مغفرت فرما، جن کو تو جانتا ہے اور میں بھول چکا ہوں۔
"اللهم اغفر لي خطاياي وعمدي" ان گناہوں کى بھی مغفرت فرما، جن کو میں نے جان بوجھ کر کیا ہے۔
وہ گناہ بھی، جن کو میں نے سنجیدگی کے ساتھ اور مذاق مذاق میں کیا ہے۔
"وكل ذلك عندي" مجھے پتہ ہے کہ اس طرح کے سارے گناہ میں نے کیے ہیں۔
"اللهم اغفر لي ما قدمت" اے اللہ! میرے پچھلے گناہوں کى مغفرت کردے۔ "وما أخرت" آنے والے وقت میں ہونے والے گناہوں کى بھی مغفرت معاف کر دے۔
"وما أسررت" جن گناہوں کو رازداری کے ساتھ کیے ہيں، ان کى بھی مغفرت کردے۔ "وما أعلنت" جو گناہ علانیہ کیے ہيں، ان کى مغفرت کردے۔
تو اپنی جس مخلوق کو چاہتا ہے، اپنی پسندیدہ چیزوں کی توفیق دے کر اپنی رحمت کی جانب آگے بڑھا دیتا ہے اور جس مخلوق کو چاہتا ہے، اکیلا چھوڑ کر اس سے پیچھے رکھ دیتا ہے۔ جسے تو پیچھے کر دے، اسے کوئی آگے بڑھا نہيں سکتا اور جسے تو آگے بڑھا دے، اسے کوئی پیچھے کر نہیں سکتا۔
"وأنت على كل شيء قدير" تو کامل قدرت والا، مکمل ارادے والا اور جو چاہے کرنے والا ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم سواحلی تمل تھائی جرمنی پشتو آسامی الأمهرية الهولندية الغوجاراتية النيبالية الرومانية คำแปลภาษาโอโรโม
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اس دعا کی فضیلت وارد ہوئی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے اس دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
  2. حد سے تجاوز کرنے سے منع کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ حد سے تجاوز کرنے والا سزا سے دوچار ہوسکتا ہے۔
  3. اللہ تعالی انسان کے بارے میں خود اس سے بھی زیادہ جانتا ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردے، کیوں کہ انسان سے نادانی میں غلطی بھی ہوسکتی ہے۔
  4. جس طرح انسان سے سنجیدگی سے ہونے والے گناہوں کا مؤاخذہ ہوگا، اسی طرح اس سے مذاق مذاق میں ہونے والے گناہ کا بھی محاسبہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے انسان کو ہنسی مذاق میں بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
  5. ابن حجر عسقلانی کہتے ہيں : میں نے اس کے کسی بھی طریق میں اس دعا کا محل نہیں دیکھا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت کے بیش تر طرق کے آخر میں آیا ہے کہ آپ اسے رات کی نماز میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ بھی آیا ہے کہ آپ اسے نماز کے آخر میں پڑھا کرتے تھے۔ روایتوں میں اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ آپ اسے سلام سے پہلے پڑھا کرتے تھے یا سلام کے بعد۔
  6. کیا اللہ کے نبی صلی اللہ مغفرت طلب کرنے کے لیے خطا کرتے تھے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ: یہ بات آپ نے تواضع اور خاک ساری کی بنیاد پر کہی ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے فوت کمال اور ترک اولی کو گناہ شمار کر لیا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے اس سے مراد ایسى چیزوں کو لیا ہو جو بھول کى بنیاد پر ہوئى ہوں یا اس سے آپ نے نبوت سے پہلے کے سرزد گناہ کو لیا ہو۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ: مغفرت طلب کرنا ایک عبادت ہے، جسے کرنا واجب ہے۔ مغفرت طلب اس لیے نہيں کی جاتی کہ مغفرت کی ہی جائے۔ جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ: یہ تنبیہ کرنے اور تعلیم دینے کا ایک طریقہ ہے کہ تاکہ لوگ بے فکر ہوکر استغفار کو ترک نہ کردیں۔