عن تميم الداري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:
«الدِّينُ النَّصِيحَةُ» قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: «لِلهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ».
[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 55]
المزيــد ...
تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا :
"دین خیر خواہی کا نام ہے"۔ ہم نے عرض کیا: کس کی خیر خواہی کا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلم حکمرانوں کی اور عام مسلمانوں کی۔“
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 55]
اللہ کے نبی ﷺ نے بتایا کہ دین اخلاص اور صدق کی بنیادوں پر قائم ہے۔ اس کا پاس و لحاظ اسی طرح رکھنا چاہیے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہے۔ کامل طریقے سے‘ اس میں نہ کوتاہی ہو اور نہ دھوکہ۔
چنانچہ اللہ کے نبیﷺ سے پوچھا گیا کہ خیرخواہی کس کی ہونی چاہیے؟ تو آپ نے جواب دیا :
1- اللہ سبحانہ و تعالی تعالی کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسی کی خاطر عبادت کی جائے، کسی کو اس کا ساجھی نہ بنایا جائے، اس کی ربوبیت، الوہیت اور اس کے اسما و صفات پر ایمان رکھا جائے، اس کے حکم کى تعظیم کی جائے اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے۔
2- اللہ کی کتاب یعنی قرآن پاک کے لیے خیر خواہی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کا کلام مانا جائے، اسے اللہ تعالیٰ کی آخری اور پچھلی تمام شریعتوں کو منسوخ کرنے والی کتاب تسلیم کیا جائے، اس کی کما حقہ تعظیم اور تلاوت کی جائے، اس کی محکم آیتوں پر عمل کیا جائے، اس کی متشابہ آیتوں کو تسلیم کیا جائے، اس کی آیتوں کے غلط مطالب بیان کرنے والوں کی غلط بیانیوں کو سامنے لایا جائے، اس کی موعظتوں سے عبرت حاصل کی جائے، اس کے علوم کو پھیلایا جائے اور اس کی دعوت دی جائے۔
3- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے آخری رسول ہونے پر یقین رکھا جائے، آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کی تصدیق کی جائے، آپ کے حکموں کی تعمیل کی جائے، آپ کی منع کی ہوئی چیزوں سے دور رہا جائے، آپ کے بتائے ہوئے طریقے ہی کے مطابق اللہ کی عبادت کی جائے، اس بات کو مانا جائے کہ ہمارے اوپر آپ کا بہت بڑا حق ہے، آپ کی عزت کی جائے، آپ کی دعوت کو عام کیا جائے، آپ کى لائی ہوئی شریعت کو پھیلایا جائے اور آپ پر لگائے جانے والے الزامات کو رد کیا جائے۔
4- مسلم حکمرانوں کی خیر خواہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق پر ان کی مدد کی جائے، ان سے ٹکرانے سے اجتناب کیا جائے اور نیکی کے کاموں میں ان کی بات سنی اور مانی جائے۔
5- عام مسلمانوں کی خیر خواہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے، ان کو اچھے کاموں کی دعوت دی جائے، ان کو تکلیف دینے سے گریز کیا جائے، ان کا بھلا ہو اس بات سے محبت رکھی جائے اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں ان کے ساتھ باہمی تعاون کا رشتہ رکھا جائے۔