عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: كنا مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم- في سفر، فَنَزَلنَا مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يُصلِح خِبَاءَه، ومِنَّا من يَنتَضِل، ومِنَّا مَن هو في جَشَرِهِ، إِذْ نادى مُنادي رسول الله صلى الله عليه وسلم : الصَّلاةُ جَامِعَةٌ. فاجْتَمَعنَا إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: «إِنَّه لَمْ يَكُن نبي قبْلِي إِلاَّ كَان حَقًّا عليه أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَه عَلَى خَيرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُم، ويُنذِرَهُم شّرَّ ما يعلمه لهم، وإِنَّ أُمَّتُكُم هذه جَعَل عَافِيَتَهَا في أوَّلِها، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلاَءٌ وأُمُورٌ تُنكِرُونَهَا، وتَجِيءُ فِتنَةٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعضًا، وتَجِيءُ الفتنة فيقول المؤمن: هذه مُهلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِف، وتجيء الفتنة فيقول المؤمن: هَذِه هذِه. فمَنْ أَحَبَّ أنْ يُزَحْزَحَ عن النار، ويدخل الجنة، فَلْتَأْتِه مَنِيَتُهُ وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وَلْيَأتِ إِلى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إليه، ومَنْ بَايَع إِمَامًا فَأَعْطَاه صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمْرَةَ قلْبِهِ، فَلْيُطِعُه إِن اسْتَطَاع، فَإِن جَاء آخَرُ يُنَازِعُه فَاضْرِبُوا عُنُقَ الآخَرِ».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم ايک سفر ميں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ ہم نے ایک منزل پر قيام کيا، ہم ميں سے بعض اپنے خيمے درست کر رہے تھے، بعض تيراندازی ميں مقابلہ کررہے تھے اور بعض اپنے مويشيوں ميں لگے ہوئے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ کے منادی نے آواز لگائی: ’’نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔‘‘ ہم سب رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھ سے پہلے جو بھی نبی ہوا اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی رہنمائی ايسے کاموں کی طرف کرے جن کو وہ ان کے لیے بہتر جانتا ہے۔ اور ان کو ان کاموں سے ڈرائے جن کو وہ ان کے لیے برا جانتا ہے۔ اور تمہاری اس امت کی عافیت اس کے پہلے حصے میں رکھ دی گئی ہے اور اس کے آخری حصے ميں آزمائش اور ايسے معاملات پيش آئیں گے جن کو تم برا سمجھو گے اور ایسے فتنے ظہور پذير ہوں گے جو ایک دوسرے کو معمولی بنا دیں گے۔ ايک فتنہ سامنے آئے گا تو مومن کہے گا: یہی ميری ہلاکت کا باعث ہو گا۔ پھر وہ دور ہو جائے گا۔ پھر (کوئی اور) فتنہ ظہور پذير ہو گا تو مومن کہے گا: یہی سب سے بڑا فتنہ ہے۔ پس جس شخص کو يہ پسند ہو کہ وہ جہنم کی آگ سے دور کرديا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، تواس کو موت اس حالت ميں آنی چاہیے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اپنے ساتھ کئے جانے کو پسند کرے، اور جو شخص کسی امام کی بيعت کرے اور اسے اپنا ہاتھ اور اپنے دل کا پھل دے دے (یعنی دل میں اس کی بیعت کے پورا کرنے کا عزم رکھے) تو اسے چاہیے کہ مقدور بھر اس کی اطاعت کرے۔ پھر اگر کوئی دوسرا شخص آکر اس سےحکومت چھیننے کے لیے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن ماردو۔”
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والوں پر بھی وہی لازم ہے جو انبیاء پر لازم تھا یعنی اچھائی کو بیان کرنا، اس کی ترغیب دینا، اس کی طرف لوگوں کى راہنمائی كرنا، اور برائی کی وضاحت کرنا اور اس سے ڈرانا۔ اس حدیث میں اس بات کا بھی بیان ہے کہ اس امت کا ابتدائی حصہ تو خیر میں رہا اور آزمائش سے محفوظ رہا ليکن اس امت کے آخری حصے کو اس طرح شر اور آزمائش پیش آئے گی کہ آنے والے فتنے پہلے کے فتنوں کو معولی اور ہلکا بناديں گے اور ان سے نجات توحید کے اقرار، سنت کی پیروی، لوگوں سے حسن سلوک اور حاکم کی بیعت کی پابندی, اس کے خلاف عدم بغاوت اور ہر اس شخص سے قتال کے ذريعہ ہی ممکن ہوگی جو مسلمانوں کی جماعت کا شیراہ بکھیرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔