عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه قَالَ:
سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ، فَقَالَ: «الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ».
[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 2553]
المزيــد ...
نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں:
میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’نیکی تو اچھا اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تجھے یہ ناگوار ہو کہ لوگ اس سے باخبر ہوں‘‘۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 2553]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا:
سب سے بڑی نیکی حسن اخلاق ہے۔ اللہ کے ساتھ حسن اخلاق یہ ہے کہ تقوی اختیار کیا جائے اور مخلوق کے ساتھ حسن اخلاق یہ ہے کہ ان کی اذیتوں کو برداشت کیا جائے، غصہ کم کیا جائے، ہنس کر ملا جائے، اچھی بات کی جائے، صلہ رحمی کی جائے، بات مانی جائے، لطف آمیز برتاؤ کیا جائے، حسن سلوک کے ساتھ زندگی گزاری جائے اور اچھی صحبت رکھی جائے۔
جب کہ گناہ ایسی مشتبہ چيز ہے، جو دل میں کھٹکے، اس سے دل مطمئن نہ ہو، بار بار یہ شک اور اندیشہ دل میں آتا رہے کہ کہیں یہ گناہ تو نہیں ہے اور آپ اسے اچھے، نیک اور کامل لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرنا چاہیں۔ کیوں کہ فطری طور پر انسان کا نفس یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی اچھی باتوں کو ہی جانیں۔ لہذا اگر آپ کسی بات سے لوگوں کی آگاہی کو ناپسند کر رہے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گناہ ہے اور اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔