عن النواس بن سمعان رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «البِرُّ حُسْنُ الخُلق، والإثم ما حَاكَ في نفسك وكرهت أن يَطَّلِعَ عليه الناس».
وعن وابصة بن معبد رضي الله عنه قال: «أتيت رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- فقال:
جئتَ تسأل عن البِرِّ؟ قلت: نعم، وقال: اسْتَفْتِ قلبك، البِرُّ ما اطمأنت إليه النفسُ واطمأن إليه القلب،
والإثم ما حَاكَ في النفس وتَرَدَّدَ في الصدر -وإن أفتاك الناس وأَفْتَوْكَ-».
[حديث النواس: صحيح.
حديث وابصة: حسن بشواهده] - [حديث النواس بن سمعان -رضي الله عنه-: رواه مسلم.
حديث وابصة -رضي الله عنه-: رواه أحمد والدارمي]
المزيــد ...
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تمہیں یہ ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کی خبر ہو“۔
وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نیکی کے بارے میں پوچھنے آئے ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے دل سے پوچھو۔ نیکی ہر وہ شے ہے جس پر نفس اور دل مطمئن ہو جائے اور گناہ ہر وہ شے ہے جو دل میں کھٹکے اور سینے میں اضطراب کا باعث ہو اگرچہ لوگ تمہیں اس کے برخلاف ہی فتوی دے رہے ہوں“۔
اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ نیکی حسن خلق کا نام ہے۔اس میں ہر وہ فعل شامل ہے جسے اچھی اخلاقی صفت کہا جا سکتا ہو چاہے وہ بندے اور اس کے رب کے مابین ہو یا پھر بندے اور اس کے مسلم بھائی کے مابین ہو یا پھر اس کے اور عام لوگوں کے مابین ہو چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر۔ یا پھر دوسری حدیث کی رو سے نیکی سے مراد ہر وہ کام ہے جس پر نفس مطمئن ہو جائے اور نفس کا اطمئنان اچھے اعمال و اقوال پر ہی ہوتا ہے چاہے وہ اخلاق میں سے ہوں یا پھر ان کے علاوہ دیگر افعال میں سے۔ اور گناہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو دل میں کھٹکے۔ جیسے کسی شبہے کا لاحق ہونا جس سے دل میں تردد ہو۔ تقویٰ کا تقاضا یہی ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے اور اس سے دور رہا جائے تاکہ نفس کو حرام میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر ترک کر دیا جائے اور اس چیز پر اعتماد کیا جائے جس پر دل مطمئن ہو۔اور جو چیز انسان کے دل میں کھٹکے وہ گناہ ہوتی ہے اگرچہ دیگر لوگ یہ فتوی دیں کہ یہ گناہ نہیں ہے۔ تاہم ایسا صرف اسی وقت ہوتا ہے جب وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جن کا سینہ ایمان کی بدولت کشادہ ہو چکا ہو اورمفتی ایسا ہو جو اسے مجرد ظن اور ہوائے نفس کی طرف میلان پر تکیہ کرتے ہوئے فتوی دے رہا ہو اور اس کے پاس کوئی شرعی دلیل نہ ہو۔ جب کہ وہ فتوی جس کے ساتھ شرعی دلیل بھی ہو تو اس کے سلسلے میں حکم یہ ہے کہ وہ اسے اختیار کرے گا اگرچہ اس کا سینہ اس کے لیے منشرح نہ بھی ہو۔