+ -

عن العِرْباضِ بن ساريةَ رضي الله عنه قال:
قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فوَعَظَنا مَوعظةً بليغةً وَجِلتْ منها القلوبُ، وذَرَفتْ منها العيونُ، فقيل: يا رسول الله، وعظتَنَا موعظةَ مُودِّعٍ فاعهد إلينا بعهد. فقال: «عليكم بتقوى الله، والسمع والطاعة، وإن عبدًا حبشيًّا، وسترون من بعدي اختلافًا شديدًا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عَضُّوا عليها بالنواجِذ، وإياكم والأمور المحدثات، فإن كل بدعة ضلالة».

[صحيح] - [رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه وأحمد] - [سنن ابن ماجه: 42]
المزيــد ...

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں:
ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے بیچ کھڑے ہوئے اور ایسا متاثر کرنے والا وعظ فرمایا کہ ہمارے دل دہل گئے اور آنکھیں بہہ پڑیں۔ لہذا کسی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا وعظ فرمایا ہے، جو الوداعی وعظ معلوم ہوتا ہے۔ لہذا آپ ہمیں کچھ وصیت فرمائ‏یں۔ چنانچہ فرمایا : "تم اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے حکمرانوں کا حکم سننا اور ماننا۔ خواہ حکمراں ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ تم میرے بعد بہت زیادہ اختلاف دیکھو گے۔ لہذا تم میری سنت اور میرے نیک اور ہدایت یاب خلفاء کی سنت پر چلتے رہنا۔ اسے اپنے داڑھوں سے پکڑے رہنا۔ اور دیکھو، دین کے نام پر سامنے آنے والی نت نئی چیزوں سے دور رہنا۔ کیوں کہ ہر بدعت (دین کے نام پر سامنے آنے والی نئی چیز) گمراہی ہے۔"

[صحیح] - - [سنن ابن ماجه - 42]

شرح

ایک دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وعظ فرمایا۔ وعظ اتنا متاثر کرنے والا تھا کہ اس سے لوگوں کے دل دہل گئے اور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ یہ منظر دیکھ کر صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک الوداع کہنے والے کی جانب سے پیش کیا جانے والا خطاب ہے۔ کیوں کہ انھوں نے دیکھا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خطاب کرتے وقت اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ لہذا انھوں نے آپ سے کچھ وصیت کرنے کو کہا، تاکہ آپ کے بعد اسے مضبوطی سے پکڑے رہیں۔ چنانچہ آپ نے کہا: میں تم اللہ عز و جل کا خوف رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے واجبات کو ادا کرنا اور محرمات سے اجتناب کرنا۔ اسی طرح میں تم کو حکمرانوں کا حکم سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں۔ خواہ تمھارا حکمراں کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی ایک معمولی سے معمولی انسان بھی اگر تمھارا حکمراں بن جائے، تو تم اس سے بدک کر دور مت ہٹو۔ تم اس کی بات مانو، تاکہ فتنے سر نہ اٹھا سکیں۔ کیوں کہ تم میں سے جو لوگ زندہ رہيں گے، وہ بہت سارا اختلاف دیکھیں گے۔ پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے اپنے صحابہ کو اس اختلاف سے نکلنے کا راستہ بتایا۔ راستہ یہ ہے کہ آپ کی سنت اور آپ کے بعد مسند خلافت سنبھالنے والے نیک ہدایت یاب خلفا؛ ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہم کی سنت کو مضبوطی سے تھام کر رکھا جائے۔ آپ نے اسے داڑھوں سے پکڑنے کا حکم دیا۔ یعنی ہر حال میں سنت کو لازم پکڑا جائے اور اس پر قائم رہا جائے۔ اس کے بعد آپ نے ان کو دین کے نام پر سامنے آنے والی نت نئی چیزوں یعنی بدعات و محدثات سے خبردار کیا۔ کیوں کہ دین کے نام پر سامنے آنے والی ہر نئی چیز گمراہی ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان ترکی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی ویتنامی کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی بورمی تھائی جرمنی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية ภาษาคีร์กีซ النيبالية ภาษาโยรูบา الليتوانية الدرية الصربية الصومالية คำแปลภาษากินยาร์วันดา الرومانية التشيكية ภาษามาลากาซี คำแปลภาษาโอโรโม ภาษากันนาดา الأوكرانية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنے اور اس کا اتباع کرنے کی اہمیت۔
  2. پند و موعظت اور دلوں کو نرم کرنے پر توجہ۔
  3. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مسند خلافت پر فائز ہونے والے چاروں صالح اور ہدایت یاب خلفا یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے اتباع کا حکم۔
  4. دین کے نام پر نئی چیزیں ایجاد کرنے کی ممانعت اور اس بات کا اعلان کہ دین کے نام پر سامنے آنے والی ہر نئی چیز بدعت ہے۔
  5. مسلمانوں کی زمام حکومت سنبھالنے والے لوگوں کی بات سننا اور ماننا ضروری ہے، جب تک کہ وہ کسی گناہ کے کام کا حکم نہ دیں۔
  6. ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کا خوف رکھنے کی اہمیت۔
  7. اس امت میں اختلافات سامنے آتے رہيں گے اور اس طرح کے حالات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کی سنت کی جانب لوٹنا لازم ہوگا۔
مزید ۔ ۔ ۔