عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم : «إن الدين يسر، ولن يشاد الدين إلا غلبه، فسددوا وقاربوا وأبشروا، واستعينوا بالغدوة والروحة وشيء من الدلجة».
وفي رواية: «سددوا وقاربوا، واغدوا وروحوا، وشيء من الدلجة، القصد القصد تبلغوا».
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "بے شک دین آسان ہے اور جب بھی دین پر سختی تھوپنے کی کوشش کی جائے گی، تو دین ایسا کرنے والے پر غالب آ جائے گا۔ لہذا، عمل کے معاملے میں اعتدال سے کام لو، اگر کامل ترین صورت اپنا نہیں سکتے تو ایسے اعمال کرو جو اس سے قریب تر ہوں، اپنے رب کے پاس ملنے والے ثواب کی خوش خبری قبول کرو، اور صبح و شام اور کسی قدر رات (کی عبادت) کے ذریعے مدد حاصل کرو"۔ ایک اور روایت میں ہے: ”عمل کے معاملے میں اعتدال سے کام لو اور اگر کامل ترین صورت اپنا نہیں سکتے تو ایسے اعمال کرو جو اس سے قریب تر ہوں۔ صبح کو چلو، شام کو چلو، اور رات کے کچھ حصے میں، میانہ روی سے کام لو اور اعتدال کا دامن نہ چھوڑو، منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے“۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
جو بھی شخص دین کی فراہم کی ہوئی آسانی کو پس پشت ڈالتے ہوئے دینی اعمال میں مشکل پسندی کی روش اپنائے گا، وہ ایک نہ ایک دن عاجز و بے بس ہوکر اپنے عمل سے کلی یا جزوی طور پر دامن کش ہو جائے گا۔ اس لیے غلو اور مبالغہ کو درکنار کرتے ہوئے اعتدال سے کام لو اور قریب ترین طریقہ اختیار کرو, چنانچہ اگر کامل ترین صورت پر عمل نہیں کر سکتے تو اس سے قریب ترین صورت پر عمل کرو۔ مسلسل کیے گئے عمل پر، اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، ثواب کی خوش خبری قبول کرو۔ اور فراغت و نشاط کے وقت کو غنیمت جان کر اللہ کی عبادت کیا کرو۔ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث میں وارد لفظ "الدین" نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ ویسے اسے منصوب بھی روایت کیا گیا ہے, نیز ایک روایت میں "لن يشاد الدين أحد" بھی آیا ہے۔ جب کہ آپ کے الفاظ "إلا غلبه" کے معنی یہ ہیں کہ دین سختی کی روش اپنانے والے پر غالب آ جائے گا جبکہ ایسا شخص دین کے احکام کے بکثرت ہونے کى وجہ سے دین کے مقابلے کی تاب نہ لا سکے گا۔ یاد رہے کہ دن کے پہلے حصے، آخری حصے اور رات میں چلنے کا حکم بطور تشبیہ ہے، جس میں ایک مسلمان کے صراط مستقیم پر چلنے کی تشبیہ ایک انسان کے دنیوی عمل میں مشغول رہنے سے دی گئي ہے، جو اقامت کی حالت میں دن کے دونوں کناروں میں یعنی صبح و شام کام کرتا ہے اور کچھ دیر آرام کرتا ہے، جب کہ سفر کی حالت میں رات میں چلتا ہے اور جب تھک جاتا ہے، تو اتر کر آرام کرتا ہے۔ کچھ یہی حالت اللہ کی جانب چلنے کی بھی ہونی چاہیے۔