+ -

عَنِ الحُسَينِ بنِ عَلِيٍّ بنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«الْبَخِيلُ مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ».

[صحيح] - [رواه الترمذي والنسائي في الكبرى وأحمد] - [السنن الكبرى للنسائي: 8046]
المزيــد ...

حسین بن علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"بخیل وہ شخص ہے، جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔"

[صحیح] - - [السنن الكبرى للنسائي - 8046]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے خبردار کیا ہے کہ کسی کے سامنے آپ کا نام، کنیت یا وصف آئے اور آپ پر درود نہ بھیجے۔ فرمایا : پورا کا پورا بخیل وہ شخص ہے، جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں :
1- اس نے ایک ایسی چيز خرچ کرنے میں کنجوسی دکھائی، جس میں ذرا بھی گھاٹا نہیں ہے۔ اس میں نہ مال خرچ ہوتا ہے اور نہ محنت لگتی ہے۔
2- اس نے خود کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے کی فضیلت سے محروم رکھا۔ اس نے آپ پر درود بھیجنے سے باز رہ کر ایک ایسے حق کی ادائيگی میں کنجوسی دکھائی، جو اس سلسلے میں وارد حکم کی تعمیل اور اجر و ثواب کے حصول کے لیے اسے ادا کرنا تھا۔
3- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنا ہمارے اوپر عائد آپ کے حقوق کی ادائيگی کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ کیوں کہ آپ نے ہمیں تعلیم دی، ہماری رہ نمائی فرمائی، ہمیں اللہ کی جانب بلایا، ہمارے پاس وحی اور ایک عظیم شریعت لے کر آئے۔ لہذا آپ اللہ کے بعد ہماری ہدایت کے سبب ہیں۔ چنانچہ آپ پر درود نہ بھیجنے والا خود اپنے نفس کے حق میں کنجوسی کرنے والا اور اپنے نبی کے ایک چھوٹے سے حق کی ادائيگی میں کنجوسی کرنے والا ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی سواحلی تھائی پشتو آسامی الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الرومانية คำแปลภาษาโอโรโม
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود نہ بھیجنا کنجوسی کی علامت ہے۔
  2. ویسے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنا تمام اوقات میں ایک بہترین نیکی کا کام ہے، لیکن آپ کا ذکر آنے پر اس کی تاکید دو چند ہو جاتی ہے۔
  3. نووی کہتے ہیں : اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجتے وقت درود و سلام دونوں بھیجے۔ کسی ایک پر اکتفا نہ کرے۔ نہ صرف (صلى الله عليه) کہے اور نہ صرف (عليه السلام)۔
  4. ابو العالیہ اللہ تعالی کے قول : (إن الله وملائكته يصلون على النبي) کے بارے میں کہتے ہیں : لفظ صلاۃ جب اللہ کی جانب سے نبی کے حق میں استعمال ہو، تو اس کے معنی تعریف کرنے کے ہیں اور فرشتوں اور انسانوں کی جانب سے استعمال ہو، تو اس کے معنی دعا کرنے کے ہیں۔
  5. حلیمی کہتے ہیں : اس طرح "اللهم صلّ على محمد" کے معنی ہوئے : اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا میں عظمت عطا فرما، آپ کے ذکر کو بلند کر کے، آپ کے دین کو غلبہ عطا کر کے اور آپ کی شریعت کو بقا مرحمت فرما کر۔ آخرت میں بھی عظمت عطا فرما، امت کے بارے میں آپ کی سفارش قبول فرما کر، بڑا اجر و ثواب مرحمت کر کے، مقام محمود کے ذریعے پہلے اور بعد کے تمام لوگوں پر آپ کی فضیلت ظاہر کر کے اور موجود مقرب ہستیوں پر آپ کو فوقیت دے کر۔