عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا دخل المسجد قال: «أعوذ بالله العظيم، وبوجهه الكريم، وسلطانه القديم، من الشيطان الرَّجِيم»، قال: أَقَطُّ؟ قلت: نعم، قال: فإذا قال ذلك قال الشيطان: حُفِظَ منِّي سائر اليوم.
[صحيح] - [رواه أبو داود]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو فرماتے ”أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ“ میں اللہ عظیم کی، اس کی ذاتِ کریم کی اور اس کی قدیم بادشاہت کی، مردود شیطان سے پناہ چاہتا ہوں۔ تو عقبہ نے کہا: کیا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے (حدیث مکمل کرتے ہوئے) کہا: جب مسجد میں داخل ہونے والا آدمی یہ کہتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اب وہ میرے شر سے دن بھر کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔
[صحیح] - [اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
آپ ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے: ”میں اللہ عظیم کی پناہ چاہتا ہوں“ یعنی آپ نے اللہ تعالیٰ جس کی ذات اور صفات عظیم ہیں کے ذریعہ اپنے آپ کو بچایا اور حفاظت کی۔ ”اس کی ذاتِ کریم کی“ الكريم کا معنی ہے سخی، ایسا دینے والا جس کی عطا ختم نہ ہوتی ہو، وہ سخی مطلق ذات ہے اور اس کی سخاوت تمام قسم کی بھلائیوں، شرف اور فضائل کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے چہرے کی صفت کو بغیر کسی تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے ثابت کرنا ضروری ہے۔ ”اس کی قدیم بادشاہت کی“ اللہ کی دلیل اور بُرھان یا اس کا غلبہ قدیم ہے۔ ”مردود شیطان سے پناہ چاہتا ہوں“ یعنی شیطان سے جو کہ اللہ کے در سے دھتکارا ہوا ہے اور جو آسمان کے دھکتے ہوئے شعلوں سے مارا ہوا ہي ۔ ”تو عقبہ نے کہا: کیا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں“ یعنی حدیث کا کوئی راوی اپنے شیخ سے کہتا ہے کہ آپ نے اتنا ہی نقل کیا ہے یا اس سے زیادہ؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا اتنا ذکر کافی ہے؟ یا اتنا ذکر شیطان کے شر سے بچنے کے لیے کافی ہے؟ اسی وجہ سے کہا، قلتُ: نعم۔ ”تو شیطان کہتا ہے کہ اب وہ میرے شر سے دن بھر کے لیے محفوظ کر لیا گیا“ یعنی مسجد میں داخل ہونے والا جب یہ دعا کہتا ہے، تو شیطان کہتا ہے۔ اس آنے والے نے اپنے آپ کو پورا دن مجھ سے محفوظ کر لیا۔