عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما:
عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا دخل المسجد قال: «أعوذ بالله العظيم، وبوجهه الكريم، وسلطانه القديم، من الشيطان الرَّجِيم»، قال: أَقَطُّ؟ قلت: نعم، قال: فإذا قال ذلك قال الشيطان: حُفِظَ منِّي سائر اليوم.
[حسن] - [رواه أبو داود] - [سنن أبي داود: 466]
المزيــد ...
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
نبی ﷺ جب مسجد میں تشریف لے جاتے، تو فرماتے : ”أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ“۔ (میں اللہ عظیم کی، جود وسخا والے اس کے چہرے کی اور اس کی قدیم بادشاہت کی پناہ چاہتا ہوں، مردود شیطان سے)۔ (عقبہ نے) کہا: کیا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے (حدیث مکمل کرتے ہوئے) کہا: جب مسجد میں داخل ہونے والا آدمی یہ دعا پڑھ لیتا ہے، تو شیطان کہتا ہے کہ اب وہ میرے شر سے دن بھر کے لیے محفوظ ہو گیا۔
[حَسَنْ] - [اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔] - [سنن أبي داود - 466]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب مسجد میں داخل ہوتے، تو کہتے: "میں پناہ لیتا ہوں عظیم اللہ کی۔" یعنی میں اللہ اور اس کی صفات کی پناہ لیتا ہوں۔ جود وعطا سے متصف اس کے چہرے کی" "اس کے غلبے کی" یعنی جس مخلوق پر چاہے اس پر اس کے غلبہ، قدرت اور قہر کی۔ "جو قدیم ہے"۔ یعنی ازلی و ابدی ہے۔ "دھتکارے ہوئے شیطان سے۔" یعنی جسے اللہ کی رحمت سے دور کر دیا گیا ہے۔ یعنی اے اللہ! مجھے اس کے وسوسے، برانگیختہ کرنے، سازشوں، نقصانات ، فریب کاریوں اور گمراہیوں سے محفوظ رکھ۔ کیوں کہ انسان کے گمراہ ہونے اور بھٹکنے وجہالت کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہوا کرتا ہے۔ اس کے بعد عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بس اتنا ہی کہا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔
ہاں مگر اس حدیث کى تکمیل یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے والا شخص یہ دعا پڑھ لیتا ہے، تو شیطان کہتا ہے: اس داخل ہونے والے شخص نے مجھ سے اپنی ذات کو دن بھر اور رات بھر کے لیے محفوظ کر لیا۔