عن عائشة رضي الله عنها ، أنَّها قالت: «الحمد لله الذي وَسِعَ سمعه الأصوات، لقد جاءت خَوْلةُ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تشكو زوجَها، فكان يخفى عليَّ كلامها، فأنزل الله عز وجلَّ: {قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها وتشتكي إلى الله والله يسمع تَحَاوُرَكُما} [المجادلة: 1]» الآية
[صحيح] - [رواه البخاري معلَّقًا بصيغة الجزم، ووصله النسائي وابن ماجه وأحمد]
المزيــد ...
اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں جو ہر آواز سنتا ہے، خولہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگیں، ان کی گفتگو مجھے سنائی نہیں دے رہی تھی، چنانچہ اللہ عزوجل نے ﴿قَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّـهِ وَاللَّـهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا﴾ ”یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا“ نازل فرمائی۔
[صحیح] - [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کی شادی اوس بن صامت سے ہوئی تھی۔ اوس رضی اللہ عنہ نے خولہ رضی اللہ عنہا سے کہا تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے یعنی تو مجھ پر حرام ہے۔ چنانچہ وہ آپ ﷺ کے پاس چلی گئیں اور آپ ﷺ کو اپنا قصہ سنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس پر حرام ہو چکی ہے۔ وہ آہستہ آواز میں یہ بات کہہ رہی تھی، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے قریب ہونے کے باوجود (ان کی گفتگو) مخفی رہی، (خولہ کہہ رہی تھیں) کہ اب جب کہ میں بوڑھی ہو چکی ہوں، اس نے میرے ساتھ ظہار کر لیا؟ میں اللہ تعالیٰ سے اپنی بچوں کے حال کی شکایت کرتی ہوں، اگر میں اسے اپنے ساتھ رکھوں تو وہ بھوکے رہیں اور اگر میں انہیں اُن کے پاس چھوڑ دوں تو وہ انہیں ضائع کردیں گے۔ یہ خولہ رضی اللہ عنہا کا آپ ﷺ کے سامنے مجادلہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا ﴿قَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّـهِ وَاللَّـهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا﴾ ”یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا“ (سورہ مجادلہ:1) ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرماتی ہیں: الحمدُ للهِ الذي وَسِعَ سَمْعُه الأصواتَ“ یعنی تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس کی سماعت تمام آوازوں کا احاطہ کی ہوئی ہے، اس سے کوئی چیز فوت نہیں ہو سکتی اگر چہ پوشیدہ ہو۔ جب خولہ رضی اللہ عنہا آ کر آپ ﷺ سے اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی، تو دھیمی آواز میں بول رہی تھیں تاکہ قریب میں اُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نہ سن لیں، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر اس کی بات سنی اور مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ (یہ آیت) اللہ تعالیٰ کے سننے کی صفت سے متصف ہونے کی سب سے مضبوط دلیل ہے۔ یہ دین میں ایک بدیہی سا طے شدہ امر ہے، اس کا انکار صرف وہی شخص کرتا ہے جو راہِ ہدایت سے بھٹک چکا ہو۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی گفتگو اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ صحابہ کرام ظاہرِ نصوص یعنی جس کی طرف پہلی دفعہ سمجھ میں آتی ہے، پر ایمان لائے تھے۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کو ان سے اور دوسرے مکلف لوگوں اور اپنے رسول سے مطلوب تھا۔ اس لیے کہ یہ جس پر وہ ایمان لائے تھے اور جس کا انہیں اعتقاد تھا اگر یہ غلط ہوتا تو (اللہ) ان کو اس پر قائم نہ رکھتا اور ان کے سامنے درست بات بیان کردی جاتی۔ جب کہ کسی سے بھی ان نصوص کے ظاہری مفہوم میں تاویل منقول نہیں، نہ ہی صحیح سند سے اور نہ ہی ضعیف سند سے، حالانکہ اس کے اسباب بکثرت موجود تھے۔