عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَ، فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ».
[صحيح] - [رواه الترمذي وابن ماجه وأحمد] - [سنن الترمذي: 2657]
المزيــد ...
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے ہوئے سنا:
”اللہ اس شخص کو تروتازہ (اور خوش) رکھے، جس نے مجھ سے کوئی بات سنی، پھر اس نے اسے جیسے مجھ سے سنا تھا ہو بہو ویسے ہی دوسروں تک پہنچا دیا، کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں بات (حدیث) پہنچائی جائے پہنچانے والے سے کہیں زیادہ بات کو سمجھنے والے ہوتے ہیں“۔
[صحیح] - [رواه الترمذي وابن ماجه وأحمد] - [سنن الترمذي - 2657]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا میں تازگی و سرسبزی اور آخرت میں سرسبزی و شادابی اور نعمتوں کے حصول کی دعا ہر اس شخص کے لیے فرمائی ہے، جو آپ کی حدیث سنے، اسے یاد رکھے اور دوسروں کو پہنچا دے۔ کیوں کہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ناقل حدیث کے مقابلے میں اس سے اخذ کرنے والا ہی کہیں زیادہ یاد رکھنے والا، سمجھنے والا اور استنباط کی صلاحیت زیادہ رکھنے والا ہوتا ہے۔ ایسے میں پہلا شخص حفظ و نقل کا کام بہتر انداز کرتا ہے اور دوسرا فہم و استنباط کا کام بہتر طریقے سے کرتا ہے۔