+ -

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ: «اللهُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِكَ نَحْيَا، وَبِكَ نَمُوتُ، وَإِلَيْكَ النُّشُورُ» وَإِذَا أَمْسَى قَالَ: «بِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ نَحْيَا، وَبِكَ نَمُوتُ، وَإِلَيْكَ النُّشُورُ» قَالَ: وَمَرَّةً أُخْرَى: «وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ».

[حسن] - [رواه أبو داود والترمذي والنسائي في الكبرى وابن ماجه] - [السنن الكبرى للنسائي: 10323]
المزيــد ...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"جب صبح ہوتی تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھتے: ”اللَّهُمَّ بِك أَصْبَحْنَا وَبِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِك نَحْيَا، وَبِك نَمُوتُ، وَإِلَيْك النُّشُورُ“ (اے اللہ ! تیری حفاظت میں ہم نے صبح کی اور تیری حفاظت میں ہی شام کی اور تیرے ہی نام پر ہم زندہ ہوتے اور تیرے ہی نام پر ہم مرتے ہیں اور تیری ہی طرف اٹھ کر جانا ہے)۔ اورجب شام ہوتی تو آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے: ”بِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ نَحْيَا، وَبِكَ نَمُوتُ، وَإِلَيْكَ النُّشُورُ“ (اے اللہ ! تیری حفاظت میں ہم نے شام کی اور تیری حفاظت میں ہم نے صبح کی اور تیرے ہی نام پر ہم زندہ ہوتے اور تیرے ہی نام پر ہم مرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے)۔ کبھی کبھی آپ (وَإِلَيْكَ النُّشُورُ) کی جگہ پر (وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ) بھی کہتے تھے۔

[حَسَنْ] - - [السنن الكبرى للنسائي - 10323]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے جب صبح آتی، یعنی طلوع فجر کے ساتھ دن کا پہلا حصہ نمودار ہوتا، تو یہ دعا پڑھتے :
"اللهُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِكَ نَحْيَا، وَبِكَ نَمُوتُ، وَإِلَيْكَ النُّشُورُ۔" اے اللہ! ہم نے تیری حفاظت میں، تیری نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہوئے، تیرے ذکر میں مشغول ہوکر، تیرے نام کے ساتھ مدد طلب کرتے ہوئے، تیری توفیق کے سائے میں اور تیری دی ہوئی قوت سے رواں دواں ہوکر صبح کی۔ (وَبِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِكَ نَحْيَا، وَبِكَ نَمُوتُ) یعنی مذکورہ دعاؤں کو شام میں ادا کرے سو کہے: تیرے ہی زندگی دینے والے نام پر ہم زندہ ہوتے اور تیرے موت دینے والے نام پر ہم مرتے ہیں۔ ہمیں تیری ہی طرف اٹھ کر جانا ہے۔ اس دعا میں آئے ہوئے لفظ "النُّشُورُ" کے معنی ہیں، موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا اور جمع ہونے کے بعد الگ الگ ہونا۔ ہمارا حال تمام اوقات میں اسی روش پر قائم ہے۔ میں نہ اس سے الگ ہوں اور نہ جدا۔
اسی طرح جب آپ کے سامنے شام آتی، جو عصر کے بعد شروع ہوتی ہے، تو فرماتے : "اللَّهُمَّ بِكَ أَمْسَيْنَا، وبكَ أصبحنا، وَبِكَ نَحْيَا، وَبِكَ نَمُوتُ، وَإِلَيْكَ المَصِيْر۔" یعنی اے اللہ ! تیری حفاظت میں ہم نے شام کی اور تیرے ہی نام پر ہم زندہ ہوتے اور تیرے ہی نام پر ہم مرتے ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اس دعا میں آئے ہوئے لفظ "المَصِيْر" کے معنی ہیں، دنیا میں لوٹنے کی جگہ اور آخرت کا انجام کار۔ پس تو ہی ہمیں زندگی دیتا ہے اور تو ہی موت دیتا ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی سواحلی تھائی پشتو آسامی الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الرومانية คำแปลภาษาโอโรโม
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے صبح و شام اس دعا کو پڑھنا مستحب ہے۔
  2. بندہ اپنے تمام احوال واوقات میں اللہ کا محتاج ہے۔
  3. ان اذکار کو پڑھنے کا افضل وقت دن کے پہلے حصے میں فجر طلوع ہونے سے سورج طلوع ہونے تک ہے اور دن کے آخری حصے میں عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے تک ہے۔ اگر کوئی بعد میں بھی پڑھتا ہے، یعنی صبح سورج بلند ہونے کے بعد پڑھتا ہے، تب بھی کافی ہے۔ ظہر کے بعد پڑھتا ہے، تب بھی کافی ہے اور مغرب کے بعد پڑھتا ہے، تب بھی کافی ہے۔
  4. حدیث کے الفاظ "وإليك النُّشور" کو صبح کے وقت سے بڑی مناسبت ہے۔ یہ الفاظ انسان کو قیامت کے دن کے اس منظر کی یاد دلاتے ہيں، جب موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ ایک نئی زندگی ہوگی۔ ایک نیا دن ہوگا، جس میں روحوں کو جسموں میں لوٹایا جائے گا۔ لوگ ہر طرف بکھرے ہوئے ہوں گے۔ اللہ کی پیدا کی ہوئی یہ نئی صبح بھی اس لیے سامنے آ رہی ہے تاکہ ابن آدم پر گواہ رہے اور اس کے اوقات و لمحات ہمارے اعمال کے خزانے بنیں۔
  5. اسی طرح دعا کے الفاظ "وإليك المصير" کی بھی شام کے وقت سے بڑی مناسبت ہے۔ شام کے وقت لوگ اپنے کاموں، کاروباروں اور زندگی کی دوڑ دھوپ سے واپس ہوتے ہيں۔ اپنے اپنے گھر کا رخ کرتے ہیں۔ الگ الگ جگہوں سے لوٹنے کے بعد آرام کرتے ہیں۔ اس طرح یہ الفاظ اللہ تبارک و تعالی کی طرف لوٹنے کی یاد دلاتے ہيں۔