عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلاَمَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ، وَأَنَّهَا قِيعَانٌ، وَأَنَّ غِرَاسَهَا سُبْحَانَ اللهِ وَالحَمْدُ لِلَّهِ وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ».
[حسن بشواهده] - [رواه الترمذي] - [سنن الترمذي: 3462]
المزيــد ...
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتا دینا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے اور اس کا پانی بہت میٹھا ہے۔ جنت ایک چٹیل میدان ہے اور اس میں شجرکاری ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ“ سے ہوتی ہے“۔
- [اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔] - [سنن الترمذي - 3462]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہيں کہ اسرا و معراج کی رات آپ کی ملاقات ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ہوئی، تو انھوں نے آپ سے کہا : اے محمد! اپنی امت کو میرا سلام پہنچا دینا اور ان کو بتا دینا کہ اس کی مٹی بہت اچھی ہے اور اس کا پانی بہت میٹھا ہے۔ اس میں کھارے پن کا شائبہ تک نہیں ہے۔ جنت ایک ہموار، پیڑ پودوں سے خالی اور وسیع و عریض زمین ہے۔ اس کے اندر درخت لگانے کا کام پاکیزہ کلمات کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔ یہ پاکیزہ کلمات باقیات صالحات بھی کہلاتے ہیں۔ یہ کلمات ہیں : سُبْحَانَ اللهِ، وَالحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ۔ جب جب کوئی مسلمان ان کلمات کا ورد کرتا ہے، تو اس کے لیے جنت میں ایک ایک درخت لگا دیا جاتا ہے۔