عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ: «يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ»، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، آمَنَّا بِكَ وَبِمَا جِئْتَ بِهِ فَهَلْ تَخَافُ عَلَيْنَا؟ قَالَ: «نَعَمْ، إِنَّ القُلُوبَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللهِ يُقَلِّبُهَا كَيْفَ يَشَاءُ».
[صحيح] - [رواه الترمذي وأحمد] - [سنن الترمذي: 2140]
المزيــد ...
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : "اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ"۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! ہم آپ پر اور آپ کے لائے ہوئے دین پر ایمان لے آئے ہيں۔ پھر بھی کیا آپ کو ہمارے بارے میں ڈر ہے؟ آپ نے کہا : "ہاں! بے شک دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں۔ اللہ جیسے چاہتا ہے، ان کو پلٹتا ہے۔"
[صحیح] - - [سنن الترمذي - 2140]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اکثر اس بات کی دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ آپ کو دین و طاعت گزاری پر ثابت قدم اور گمراہی و کج روی سے دور رکھے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو تعجب ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا اتنی زیادہ کیوں کرتے ہيں؟ لہذا آپ نے ان کو بتا دیا کہ انسان کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں۔ وہ ان کو جیسے چاہتا ہے، پلٹتا رہتا ہے۔ قلب ایمان اور کفر کا بسیرا ہے۔ قلب کو قلب کہا اس لیے جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ الٹ پھیر کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ قلب ہانڈی میں موجود اس پانی سے بھی زیادہ الٹ پھیر کا شکار رہتاہے، جو تیز آنچ کی وجہ سے جوش مار رہا ہو۔ ایسے ميں اللہ جس شخص کے دل کو چاہتا ہے، ہدایت پر قائم اور دین پر ثابت رکھتا ہے۔ اس کے برخلاف جس کے دل کو چاہتا ہے، گمراہی کی طرف پھیر دیتا ہے۔