+ -

عَنْ المِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«مَا مَلأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ، بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أَكَلاَتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ، فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ، وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ، وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ».

[صحيح] - [رواه الإمام أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه] - [الأربعون النووية: 47]
المزيــد ...

مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
”آدمی نے اپنے پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں بھرا۔ انسان کے لیے بس چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے ہو، ایک تہائی پانی پینے کے لیے ہو اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے خالی رہے۔“

[صحیح] -

شرح

اللہ کے نبی ﷺ ہمیں یہاں طب کا ایک اصول بتا رہے ہیں، جس سے انسان اپنی صحت کی حفاظت کر سکتا ہے۔ یہ اصول ہے کم کھانا کھانا۔ کھانا بس اتنا کھایا جائے کہ انسان زندہ رہے اور ضروری کاموں کے لیے توانائی مل جائے۔ بھرا جانے والا سب سے بدترین برتن دراصل پیٹ ہے کہ پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے نتیجے میں بے شمار ظاہر و باطنی بیماریاں جلد یا بدیر سامنے آتی ہیں۔ اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اگر انسان کو پیٹ بھر کر کھانا کھانا ہی ہو، تو ایک تہائی حصے کے بہ قدر کھانا کھائے، ایک تہائی حصے کے بہ قدر پانی پیے اور ایک تہائی حصہ سانس لینے کے لیے رکھے، تاکہ پریشانی، نقصان اور دینی و دنیوی فرائض کی ادائیگی میں سستی نہ ہو۔

حدیث کے کچھ فوائد

  1. انسان کو زیادہ کھانے پینے سے بچنا چاہیے۔ یہ طب کا بھی ایک اہم ترین اصول ہے۔ کیوں کہ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
  2. کھانے کا مقصد صحت اور طاقت کو برقرار رکھنا ہے جو زندگی کی بنیاد ہیں۔
  3. پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بہت سے جسمانی اور دینی نقصانات ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "تم پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے بچو۔ کیوں کہ یہ جسم کے لیے نقصان دہ ہے اور نماز میں سستی پیدا کرتا ہے۔"
  4. حکم کے اعتبار سے کھانے کی کئی قسمیں ہوا کرتی ہیں۔ اتنا کھانا واجب ہے، جس سے جان بچی رہے اور جسے ترک کرنا نقصان کا باعث ہو۔ قدر واجب سے زیادہ اور اتنا کھانا جائز ہے، جس سے نقصان ہونے کا ڈر نہ ہو۔ اتنا کھانا مکروہ ہے کہ جس سے نقصان ہونے کا ڈر ہو۔ اتنا کھانا حرام ہے کہ جس سے نقصان ہونے کا یقین ہو۔ اتنا کھانا مستحب ہے کہ جس سے اللہ کی عبادت اور نیکی کے کاموں میں تعاون ملے۔ زیر بحث حدیث میں ان تمام باتوں کو مختصر انداز میں درج ذیل تین مراتب میں بیان کر دیا گیا ہے: 1- پیٹ بھر کر کھانا کھانا۔ 2- اتنا کھانا کھانا کہ پیٹھ کھڑی رہ سکے۔ 3۔ جب کہ تیسرے مرتبے کو درج ذیل الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے: "پیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے ہو، ایک تہائی پانی پینے کے لیے ہو اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے خالی رہے۔" لیکن یہ ساری باتیں اس وقت ہیں، جب کھائی جانے والی چیز حلال ہو۔
  5. یہ حدیث طب کے ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیوں کہ علم طب کے بنیادی اصول تین ہیں: صحت کی حفاظت کرنا، احتیاط برتنا اور علاج کرنا۔ جب کہ اس حدیث میں پہلے دونوں اصول موجود ہیں۔ ارشاد باری تعالی بھی ہے: (اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے آگے مت نکلو۔ بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔)
  6. اسلامی شریعت ایک مکمل شریعت ہے، جس میں انسان کے دینی ودنیوی دونوں طرح کے مصالح کا خیال رکھا گیا ہے۔
  7. شرعی علوم ہی کا ایک حصہ علم طب کی بنیادی باتیں اور اس کے مختلف حصے ہيں۔ جیسا کہ شہد اور کلونجی کے بارے میں آیا ہے۔
  8. شرعی احکام کے اندر بڑی حکمتیں پائی جاتی ہيں۔ تمام شرعی احکام نقصانات کو روکنے اور منافع کو حاصل کرنے پر مبنی ہیں۔
ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل تھائی پشتو آسامی الباني الأمهرية الغوجاراتية ภาษาคีร์กีซ النيبالية الدرية الصربية الطاجيكية คำแปลภาษากินยาร์วันดา المجرية التشيكية الموري ภาษากันนาดา الولوف ภาษาอาเซอร์ไบจาน الأوزبكية الأوكرانية الجورجية المقدونية الخميرية
ترجمہ دیکھیں