+ -

عَن ابنِ عباسٍ رضي الله عنهما أنَّ رسولَ اللهِ صلي الله عليه وسلم قال:
«لَو يُعطَى النّاسُ بدَعواهُم لادَّعَى رِجالٌ أموالَ قَومٍ ودِماءَهُم، ولَكِنَّ البَيِّنَةَ على المُدَّعِى، واليَمينَ على مَن أنكَرَ».

[صحيح] - [رواه البيهقي] - [السنن الكبرى للبيهقي: 21243]
المزيــد ...

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
"اگر لوگوں کو ان کے دعووں کی بنیاد پر دے دیا جائے تو کچھ لوگ، لوگوں کی جان اور مال تک کا دعوی کرنے لگیں۔ لیکن، دعوی کرنے والے کو دلیل پیش کرنی ہے اور انکار کرنے والے کو قسم کھانی ہے۔"

[صحیح] - [اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔] - [السنن الكبرى للبيهقي - 21243]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ہے کہ اگر لوگوں کو دلائل اور قرائن کی پڑتال کیے بغیر محض ان کے دعوے کی بنیاد پر دے دیا جانے لگے، تو کچھ لوگ لوگوں کے اموال اور جان تک کا دعوی کرنے لگیں۔ لہذا مدعی کو اپنے دعوے کی دلیل پیش کرنے ہوگی۔ اگر اس کے پاس دلیل نہ ہو، تو دعوے کو مدعی علیہ کے سامنے رکھا جائے گا۔ اگر اس نے انکار کر دیا، تو اسے قسم کھانی ہوگی۔ اس کے بعد وہ بری ہو جائے گا۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تھائی پشتو آسامی السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية ภาษาคีร์กีซ النيبالية الصربية الرومانية ภาษามาลากาซี ภาษากันนาดา
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. ابن دقیق العید کہتے ہيں : یہ حدیث اسلامی احکام کے ایک بنیادی اصول اور تنازع و جھگڑے کے وقت ایک عظیم ترین مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
  2. شریعت اسلامی کا ایک بنیادی مقصد جان ومال کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی راہ کو بند کرنا اور جان ومال کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
  3. قاضی اپنے علم کی روشنی میں نہیں بلکہ دلائل کی روشنی میں فیصلہ کرے گا۔
  4. بلا دلیل دعوی قابل قبول نہيں ہے۔ دعوی کا تعلق چاہے حقوق و معاملات سے ہو یا ایمان و علم کے مسا‏ئل سے۔
مزید ۔ ۔ ۔