عن عمران بن حصين رضي الله عنهما قال: كانت بي بَوَاسيرُ، فسألت النبي صلى الله عليه وسلم عن الصلاة، فقال: «صَلِّ قائما، فإن لم تستطع فقاعدا، فإن لم تستطع فعلى جَنْبٍ».
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز کے بارے میں پوچھا کہ کیسے پڑھوں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: کھڑے ہو کر پڑھو اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہیں تو بیٹھ کر پڑھ لو اور اگر بیٹھ کر بھی پڑھنے کی طاقت نہیں تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔
صحیح - اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

شرح

اس حدیث میں اس شخص کی نماز کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے جس کو بواسیر کا مرض ہو یا کوئی اور تکلیف یا عذر لاحق ہو جس وجہ سے وہ کھڑا نہ ہو سکتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بتایا ہے کہ اصل قیام ہے اور اگر کسی میں کھڑے ہونے کی طاقت نہیں تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے اور اگر کسی میں بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں تو وہ پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ سکتا ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الدرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. بیمار شخص کی فرض نماز کے مراتب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ لہذا قیام پر قدرت رکھنے کی صورت میں کھڑا ہونا ضروری ہے، کیوںکہ قیام فرض نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، اگرچہ کسی لاٹھی، دیوار یا اس جیسی چیز کا سہارا لے کر کھڑاہونا پڑے۔
  2. اگر قیام کی طاقت نہ ہو یا قیام مشکل ہو، تو بیٹھ کر نماز پڑھنا لازم ہے، اگرچہ کسی چیز کا سہارا لینا پڑے یا ٹیک لگانا پڑے۔ قدرت ہو تو رکوع اور سجدہ بھی کرے گا۔ لیکن اگر بیٹھ بھی نہیں سکتا یا شاق گزرے، تو اپنے پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھے گا۔ داہنے پہلو پر لیٹ کر پڑھنا افضل ہے۔ لیکن اگر قبلہ کی طرف چت لیٹ کر پڑھ لیتا ہے، تب بھی نماز صحیح ہو جائے گی۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو، تو اپنے سر سے اشارہ کرکے پڑھے گا۔ سجدے کے لیے اشارہ رکوع کے بہ نسبت زیادہ جھک کر کرے گا، تاکہ دونوں رکنوں کے درمیان فرق ہو جائے۔ ویسے بھی سجدے میں رکوع سے زیادہ جھکا جاتا ہے۔
  3. کسی حالت سے اس سے کم ترحالت کی طرف اسی صورت میں منتقل ہونا جائز ہوگا، جب پہلی حالت کی یا تو طاقت نہ ہو یا اسے کرنے میں مشقت اٹھانی پڑے، کیوںکہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونا استطاعت کے ساتھ مقید ہے۔
  4. وہ مشقت جو فرض نماز کو بیٹھ کر پڑھنے کو جائز قرار دیتی ہے، ایسی مشقت ہے، جس سے خشوع ختم ہوجائے، کیوںکہ خشوع کا پایاجانا نماز کے بڑے مقاصد میں سے ایک ہے۔
  5. وہ اعذار جو فرض نماز بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں، بہت سارے ہیں۔ یہ صرف بیماری کے ساتھ خاص نہیں ہیں، بلکہ چھت کا چھوٹا ہونا جس سے نکلا نہ جائے، کشتی، اسٹیمر، کار یا جہاز میں ضرورت کے وقت نماز پڑھنا اورقیام پر قدرت نہ رکھنا، یہ سب ایسے اعذارہیں، جو بیٹھ کرنماز پڑھنے کومباح ٹھہراتے ہیں۔
  6. جب تک عقل باقی رہے، نماز ساقط نہیں ہوتی۔ لہذا جب بیمار شخص اپنے سر سے اشارہ نہ کر پائے، تو اپنی دونوں آنکھوں سے اشارہ کرے گا۔ رکوع کے لیے آنکھوں کو تھوڑا سا جھکائے گا اورسجدے کے لیے کچھ زیادہ جھکائے گا۔ اگر زبان سے پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو، تو پڑھے، ورنہ اپنے دل میں پڑھے گا۔ اگر آنکھ سے بھی اشارہ نہ کرسکے، تو دل ہی دل میں نماز پڑھ لے گا۔
  7. حدیث کا اطلاق اس بات کا متقاضی ہے کہ کھڑے ہونے کی طاقت نہ رکھنے والا بیٹھ کر جس حال میں چاہے نماز پڑھے۔ اس پر اجماع بھی ہے۔ البتہ اختلاف افضلیت میں ہے۔ جمہور کے نزدیک قیام کی جگہ اور رکوع سے اٹھنے کے بعد چار زانو ہو کر بیٹھے گا، جب کہ سجدے سے اٹھنے کی جگہ میں قدموں کو بچھا کر بیٹھے گا۔
  8. اللہ تعالیٰ کے اوامر کی بجا آوری استطاعت و قدرت کے مطابق کی جائے گی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا مکلّف نہیں بناتا۔
  9. شریعت محمدیہ کی آسانی و رواداری کا بیان اور اس کا اللہ تعالی کے ان فرمانوں کے مطابق ہونا : {وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ} [الحج:78] یعنی اللہ تعالی نے دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں پیدا کی ہے۔ {يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ} [النساء] یعنی اللہ تعالی تمھارے لیے آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں پر بڑی وسیع ہے۔
  10. لیکن ان ساری باتوں کا تعلق فرض نمازوں سے ہے۔ رہی بات نفل نماز کی تو یہ بغیر کسی عذر کے بھی بیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے۔ البتہ عذر کی بنا پر بیٹھ کر پڑھنے سے نماز کا پورا ثواب ملے گا، جب کہ بلا کسی عذر کے بیٹھ کر پڑھنے سے نماز کا آدھا ثواب ملے گا۔ یہ بات حدیث سے ثابت ہے۔
مزید ۔ ۔ ۔