عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضي الله عنه قَالَ:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّكْرَ، مَا لَهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا شَيْءَ لَهُ» فَأَعَادَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا شَيْءَ لَهُ» ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا، وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ»
[صحيح] - [رواه النسائي] - [سنن النسائي: 3140]
المزيــد ...
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں:
ایک شخص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کیا : ایسے شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، جو جہاد میں اجر اور شہرت کی طلب میں شریک ہوتا ہو؟ اسے کیا ملے گا؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا : "اسے کچھ نہيں ملے گا۔" اس نے اپنا سوال تین بار دوہرایا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار یہی کہا کہ "اسے کچھ نہيں ملے گا۔" پھر فرمایا : "بلاشبہ اللہ اسی عمل کو قبول کرتا ہے، جو خالص اسی کے لیے اور اس کی رضامندی کے حصول میں کیا جائے۔"
[صحیح] - [اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔] - [سنن النسائي - 3140]
ایک آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس آدمی کا حکم پوچھنے آیا، جو جہاد میں اللہ سے اجر و ثواب اور لوگوں کی تعریف حاصل کرنے کے لیے شریک ہوتا ہو۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ ایسے شخص کو اجر و ثواب ملے گا یا نہیں؟ لہذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے جواب یہ دیا کہ اسے کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ کیوں کہ اس نے اپنی نیت میں غیراللہ کو شریک کر لیا۔ اس شخص نے اپنا یہ سوال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے تین بار رکھا اور آپ نے ہر بار یہی جواب دیا کہ اسے کوئی اجر و ثواب نہيں ملے گا۔ اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کے یہاں کسی عمل کے قبول ہونے کا ایک قاعدہ بیان فرما دیا۔ قاعدہ یہ ہے کہ اللہ صرف اسی عمل کو قبول فرماتا ہے، جسے پورے طور پر اللہ کے لیے اور اس کی خوش نودی کے حصول کی خاطر کیا جائے اور اس میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔