+ -

عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:
«ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا».

[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 34]
المزيــد ...

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا :
"جس نے اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد ﷺ کو اپنا رسول تسلیم کرلیا اس نے ایمان کی چاشنی پالی۔"

[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 34]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ جس ایک سچے ایمان والا اور ایمان کو حرز جاں سمجھنے والا مومن اپنے دل میں بڑی کشادگی، وسعت، خوشی، حلاوت اور اللہ سے قریب ہونے کی لذت محسوس کرے گا؛ اگر وہ تین باتوں پر مطمئن ہو :
1- اللہ کو اپنا رب تسلیم کر کے مطمئن ہو۔ یعنی اپنے رب کی عطا کی ہوئی تمام چیزوں، جیسے روزی اور زندگی کے نشیب و فراز کو پورے شرح صدر کے ساتھ قبول کرے، اس تعلق سے دل اندر کوئی کبیدگی اور اعتراض نہ پائے اور اللہ کے علاوہ کسی کو رب بنانے کی کوشش نہ کرے۔
2- اسلام کو اپنا دین تسلیم کر کے مطمئن ہو اور اسلام کی عائد کردہ ذمے داریوں اور واجبات کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرے اور اسلام کے راستے کو چھوڑ کوئی اور راستہ نہ ڈھونڈے۔
3- محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول مان کر مطمئن ہو۔ آپ کی لائی ہوئی تمام تعلیمات کو سر آنکھوں پر رکھے۔ شک و شبہ کو دل میں راہ پانے کا موقع نہ دے اور آپ کے طریقے کو حرز جاں سمجھے۔

حدیث کے کچھ فوائد

  1. جس طرح کھانے پینے کی چیزوں کی حلاوت اور مزہ ہوا کرتا ہے، اسی طرح ایمان بھی حلاوت اور مزہ ہوا کرتا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کی حلاوت اور مزہ منہ سے محسوس کرتے ہيں اور ایمان کی حلاوت اور مزہ دل سے۔
  2. جس طرح جسم کھانے پینے کی جیزوں کی حلاوت تندرستی کی حالت میں ہی محسوس کرتا ہے، اسی طرح قلب ایمان کی حلاوت گمراہ کن خواہشات اور حرام شہوتوں سے محفوظ ہونے کی صورت میں ہی کرتا ہے۔ بیمار دل ایمان کی حلاوت محسوس نہیں کرتا۔ بلکہ کبھی کبھی تو اسے ہلاکت خیز خواہشات اور گناہ کے کاموں ہی میں مزہ آنے لگتا ہے۔
  3. جب انسان کسی چيز سے مطمئن ہو اور اسے بہتر جانے، تو اسے وہ چيز مشکل نہيں لگتی، آسان ہو جاتی ہے اور خوشیوں کی سوغات نظر آتی ہے۔ یہی حال مومن کا ہے۔ جب اس کے دل میں ایمان جاگزیں ہو جاتا ہے، تو اس کے لیے رب کے حکموں کو بجا لانا آسان ہو جاتا ہے، رب کی بندگی میں مزہ آنے لگتا ہے اور اس راہ میں آنے والی پریشانیاں مشکل نہيں لگتیں۔
  4. ابن قیم کہتے ہیں : اس حدیث کے اندر اللہ کی ربوبیت و الوہیت پر مطمئن رہنے، اس کے رسول اور رسول کی پیروی پر مطمئن رہنے اور اس کے دین پر مطمئن رہنے اور دین کی تعلیمات کو سر آنکھوں پر رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔
ترجمہ: انگریزی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تھائی پشتو آسامی السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية ภาษาคีร์กีซ النيبالية الصربية الرومانية المجرية الموري ภาษามาลากาซี الجورجية
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔