عن جرير بن عبد الله البجلي رضي الله عنه قال: كنا عندَ النبيِّ صلى الله عليه وسلم فنظرَ إلى القمرِ ليلةَ البدرِ، فقالَ: «إنَّكم سترون ربَّكُمْ كما تروْن هذا القمر، لاَ تُضَامُونَ في رُؤْيَته، فَإن استطعتم أنْ لاَ تُغْلَبُوا على صلاة قبل طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا، فَافْعَلُوا». وفي رواية: «فنظر إلى القمر ليلة أربع عشرة».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ ﷺ نے چاند کی طرف نظر اٹھائی، جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا: ”یقینا تم لوگ اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے، جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمھیں اس کے دیدار میں مطلق تکلیف نہ ہوگی۔ لہٰذا اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو"c2">“۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:”پس آپ ﷺ نے چاند کی طرف نگاہ اٹھائی، جو چودہویں رات کا تھا“۔
صحیح - متفق علیہ

شرح

جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ اس حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نبی ﷺ کے ہم راہ تھے کہ آپ ﷺ نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”تم عن قریب اپنے پروردگار کا دیدار اسی طرح کروگے، جس طرح اس چاند کا مشاہدہ کر رہے ہو"c2">“ یعنی قیامت کے روز مؤمنین، جنت میں اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھیں گے، جس طرح دنیا میں چودہویں رات کے چاند کو دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، چاند کی طرح ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ جیسی کوئی چیز نہیں، وہ سب سے زیادہ عظیم اور صاحب جلال ہے۔ یہاں فقط ایک رؤیت کو دوسری رؤیت سے تشبیہ دینے کا معنی مقصود ہےکہ جس طرح ہم چودہویں رات کے چاند کا اپنی حقیقی آنکھوں سے اس طرح مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی رؤیت میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہتا، اسی طرح ہم اپنے عزیز و صاحب جلال پروردگار کا دیدار بلا کسی شک و شبہ کے اس چاند کو اپنی حقیقی آنکھوں سے دیکھنے کی طرح کریں گے۔ یہ بات بھی جان لو کہ اہل جنت کے نزدیک سب سے زیادہ لذیذ و نفیس اور عمدہ ترین نعمت، اللہ تعالیٰ کا دیدار ہی ہوگا اور کوئی دوسری شے اس کے برابر نہیں ہوسکتی،اور رسول اللہ ﷺ نے اس عظیم نعمت کہ ”جس طرح ہم اس چودہویں رات کے چاند کا نظارہ کررہے ہیں، اسی طرح اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے"c2">“ کا ذکر کرنے کے بعدفرمایا: ”لہٰذا اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے، تو ایسا ضرور کرو“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں کو بلا کم و کاست وکامل طریقے سے ادا کرو۔ ان کو کامل طریقے سے ادا کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ انھیں جماعت سے ادا کیا جائے۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ نماز فجر اور نماز عصر کی محافظت اور ان کی ادائیگی میں استقامت کے سبب، اللہ عز وجل کا دیدار نصیب ہوگا۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی جرمنی جاپانی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. صحابۂ کرام کا اللہ کے نبی ﷺ کی صحبت اختیار کرنے کا شوق۔
  2. ایمان والوں کے لیے بشارت کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار کر سکیں گے۔
  3. حقیقی رؤیت کا اثبات، جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول نے بتلایا ہے، بر ان کے لوگوں کے دعوے کے، جو تاویل اور تعطیل کے قائل ہیں۔
  4. فجر اور عصرکی نمازوں کی فضیلت، لہذا ان دونوں کی پابندی کرنی چاہیے۔
  5. ان دونوں وقتوں کو بطور خاص یہ فضلیت اس لیے حاصل ہے کہ ان میں فرشتے اکٹھا ہوتے ہیں اور بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہيں۔ لہذا بندوں کو اس عظیم فضل سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔
  6. تاکید اور ترغیب کا اسلوب بھی دعوت کے اسالیب میں شامل ہيں۔
مزید ۔ ۔ ۔