+ -

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: كَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ».

[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 2739]
المزيــد ...

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو دعائيں کیا کرتے تھے، ان میں سے ایک یہ ہے:
"اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے، تیرى ناگہانی گرفت سے، اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے تيری پناہ مانگتا ہوں۔"

[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 2739]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے چار چيزوں سے پناہ مانگی ہے :
پہلی : "اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ۔" یعنی اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری دینی اور دنیوی نعمت کے زائل ہونے سے۔ تجھ سے دعا ہے کہ میں اسلام پر ثابت قدم رہوں اور ایسے گناہوں میں ملوث ہونے سے دور رہوں، جو نعمتوں کو زائل کر دیتے ہيں۔
دوسری : "وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ"۔ اور اس بات سے کہ تیری جانب سے ملی ہوئی عافیت ابتلا و آزمائش میں بدل جائے۔ دعا ہے کہ مجھے دائمی عافیت اور دکھوں اور بیماریوں سے سلامتی عطا فرما۔
تیسری : "وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ۔" اس بات سے کہ اچانک تیری بلا یا مصیبت آن پڑے۔ کیوں کہ مصیبت اور سزا جب اچانک آن پڑتی ہے، تو انسان کو توبہ اور اپنی اصلاح کا موقع نہيں مل پاتا۔ لہذا مصیبت زیادہ بڑی اور زیادہ سخت ہو جاتی ہے۔
چوتھی : "وَجَمِيعِ سَخَطِكَ"۔ تیری ناراضگی کا سبب بننے والی تمام چيزوں سے۔ کیوں کہ جس سے تو ناراض ہوگیا، اس کی قسمت پھوٹ گئی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے لفظ "جمیع" کا استعمال اس لیے کیا ہے، تاکہ اس کی ناراضگی کا سبب بننے والے تمام اقوال، اعمال اور اعتقادات شامل ہو جائيں۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی سواحلی تمل تھائی پشتو آسامی الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الرومانية คำแปลภาษาโอโรโม
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے محتاج تھے۔
  2. یہ مبارک استعاذہ، اللہ کی نعمتوں کے شکر اور گناہوں میں پڑنے سے حفاظت پر مشتمل ہے، کیوں کہ گناہوں سے نعمتیں چھن جاتی ہیں۔
  3. اللہ کی ناراضگی کی جگہوں سے دور رہنے کا اہتمام۔
  4. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اچانک مصیبت آن پڑنے سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ کیوں کہ اللہ جب کسی بندے سے انتقام لینا چاہتا ہے، تو اس پر ایسی مصیبت ڈال دیتا ہے، جسے وہ اکیلے تو کجا ساری مخلوقات مل کر بھی ہٹا نہیں سکتیں۔
  5. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کی دی ہوئی عافیت کے پلٹ جانے سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ کیوں کہ اللہ کی عافیت نصیب ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس دونوں جہانوں کی خیر موجود ہے اور اس کے پھر جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے دونوں جہانوں کا شر باہیں پھیلائے کھڑا ہے۔ دراصل عافیت ہی سے دین و دنیا کی درستگی ہے۔