عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ الخُزَاعِيِّ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الجَنَّةِ؟ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعِّفٍ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ، أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ: كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 4918]
المزيــد ...
حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں: میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے ہوئے سنا:
کیا میں تمہیں جنتیوں کے اوصاف نہ بتاؤں؟ ہر کمزور اور متواضع شخص، اگر اللہ پر قسم اٹھا لے، تو اللہ اس کی قسم کی لاج رکھ لے۔ کیا میں تمھیں جہنمیوں کے اوصاف نہ بتاؤں؟ ہر تند خو، سرکش وبخیل اور متکبر شخص"۔
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 4918]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں اہل جنت اور اہل جہنم کے کچھ اوصاف بیان کیے ہیں۔
اہل جنت کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی، تواضع کے پیکر، اللہ کے آگے جھکنے والے اور اس اس سامنے فروتنی اختیار کرنے والے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ انھیں کمزور اور کم تر تصور کرنے لگیں گے۔ لیکن اللہ کے یہاں ان کی عظمت کا حال یہ ہوگا کہ اگر اللہ کے فضل و کرم کی امید میں کوئی قسم کھا لیں، تو اللہ ان کی قسم کی لاج رکھ لے اور ان کے دامن مراد کو بھر دے۔
جب کہ جہنم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی، جو «عُتُل» یعنی بدخلق اور جھگڑالو یا ایسے سرکش ہوں گے، جو خیر کی کوئی بات نہ مانیں۔ «جواظ» یعنی گھمنڈی، پیٹ کے پجاری، بھاری بھرکم جسم والے، اکڑ کر چلنے والے، بدخلق ہوں گے۔ «مستكبر» یعنی ایسے نک چڑھے ہوں گے، جو حق کو ٹھکرا دیں گے اور دوسرے لوگوں کو کم تر دیکھیں گے۔