+ -

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:
أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلاَثٍ: صِيَامِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ.

[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 1981]
المزيــد ...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں:
مجھے میرے دوست ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تین چیزوں کی وصیت کی؛ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھنے، چاشت کی دو ركعت نماز پڑھنے اور سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی۔

[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 1981]

شرح

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ ان کے دوست اور ساتھی یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو تین باتوں کی وصیت کی:
1- ہر مہینے تین دن روزہ رکھنے کی۔
2- ہر روز چاشت کی دو رکعت نماز نماز پڑھنے کی۔
3- سونے سے پہلے وتر کی نماز پڑھنے کی۔ یہ وصیت بطور خاص اس شخص کے لیے ہے، جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں جاگ نہیں سکے گا۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم سواحلی تھائی جرمنی پشتو آسامی الأمهرية الهولندية الغوجاراتية النيبالية الرومانية ภาษามาลากาซี คำแปลภาษาโอโรโม
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے الگ الگ ساتھیوں کو الگ الگ طرح کی وصیتیں اس لیے کی تھیں کہ آپ ان کے احوال سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ کس کے لیے کیا مناسب ہے۔ مثلا توانا کے لیے جہاد، عبادت گزار کے لیے عبادت اور عالم کے لیے علم مناسب ہے۔
  2. ابن حجر عسقلانی ہر مہینے تین دن کے روزے کی وصیت کے بارے میں کہتے ہیں : بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان روزوں سے مراد ایام بیض یعنی ہجری مہینے کے تیرہویں، چودھویں اور پندرھویں دن کے روزے ہیں۔
  3. ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وتر کی نماز سونے سے پہلے پڑھ لینا مستحب ہے۔ لیکن یہ اس کے حق میں ہے، جسے جاگ پانے کا بھروسہ نہ ہو۔
  4. ان تینوں اعمال کی اہمیت۔ کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کئی ساتھیوں کو ان کی وصیت کی ہے۔
  5. ابن دقیق العید چاشت کی دو رکعتوں کے بارے میں کہتے ہیں : شاید آپ نے کم سے کم رکعتوں کا ذکر کیا ہے، جنھیں پڑھنے کی تاکید وارد ہوئی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چاشت کی نماز مستحب ہے اور اس کی کم سے کم رکعت دو ہے۔
  6. چاشت کی نماز کا وقت : چاشت کی نماز کا وقت سورج ڈوبنے کے لگ بھگ پندرہ منٹ بعد سے شروع ہوتا ہے اور ظہر کی نماز سے لگ بھگ دس منٹ پہلے تک رہتا ہے۔ یہ نماز کم سے کم دو رکعت ہے۔ جب کہ زیادہ سے زیادہ کتنی پڑھی جا سکتی ہے، اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے آٹھ رکعت کہا ہے اور کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔
  7. وتر کی نماز کا وقت : وتر کی نماز کا وقت عشا کی نماز کے بعد سے فجر طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یہ نماز کم سے کم ایک رکعت اور زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعت ہے۔