عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسعودٍ رضي الله عنه عن رَسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قال:
«الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، -ثلاثًا-»، وَمَا مِنَّا إِلَّا، وَلَكِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ.
[صحيح] - [رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه وأحمد] - [سنن أبي داود: 3915]
المزيــد ...
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے۔ -آپ نے یہ بات تین بار کہی-" ویسے ہم میں سے ہر شخص کے دل میں اس طرح کی بات آتی ہے، لیکن اللہ عز و جل توکل کے ذریعے اسے ختم کر دیتا ہے۔
[صحیح] - - [سنن أبي داود - 3915]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی بھی سنی جانے والی یا دیکھی جانے والی چیز، جیسے پرندے، جانور، معذور انسان، عدد یا دن وغیرہ سے برا شگون لینے سے خبردار کیا ہے۔ لیکن یہاں پرندے کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں اس سے بد شگونی لینا ایک عام بات تھی۔ ہوتا یہ تھا کہ عرب کے لوگ جب کوئی کام، جیسے سفر یا تجارت وغیرہ شروع کرنے کا ارادہ کرتے، تو ایک پرندہ اڑاتے۔ اب اگر پرندہ دائیں اڑتا، تو نیک شگون لیتے اور اس کام میں قدم آگے بڑھاتے۔ لیکن اگر بائیں اڑتا، تو بدشگونی لیتے اور قدم پیچھے کھینچ لیتے۔ آپ نے اسے شرک بتایا ہے۔ شرک اس لیے کہ بھلائی لانے والا اور برائی سے بچانے والا اللہ کے سوا کوئی نہيں ہے۔
آگے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ کبھی کبھی مسلمان کے دل میں تھوڑی بہت بدشگونی آ ہی جاتی ہے۔ ایسے میں اسے اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے اسے دور کرنا چاہیے اور ساتھ ہی اسباب بھی اختیار کرنا چاہیے۔