عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا:
أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ، كَانُوا قَدْ قَتَلُوا وَأَكْثَرُوا، وَزَنَوْا وَأَكْثَرُوا، فَأَتَوْا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: إِنَّ الَّذِي تَقُولُ وَتَدْعُو إِلَيْهِ لَحَسَنٌ، لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا كَفَّارَةً، فَنَزَلَ {وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ}[الفرقان: 68]، وَنَزَلَت: {قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ} [الزمر: 53].
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 4810]
المزيــد ...
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
کچھ مشرک، جنھوں نے بہت سے لوگوں کی جانیں لی تھیں اور زنا میں بھی بہت زیادہ ملوث رہ چکے تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہنے لگے : آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جن باتوں کی دعوت دے رہے ہیں، سب ٹھیک ہیں۔ اگر آپ ہمیں یہ بتا دیں کہ ہم نے جو گناہ کیے ہیں، ان کا کفارہ بھی ہے، (تو بہتر ہوگا)۔ چنانچہ یہ آیت کریمہ اتری : {وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ} (اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہيں پکارتے اور نہ اس نفس کو قتل کرتےہيں، جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے، مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں۔) [سورہ الفرقان : 66] اور یہ آیت کریمہ بھی اتری : {قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ} (اے نبی! آپ میرے ان بندوں سے کہہ دیں، جنھوں نے اپنے اوپر ظلم کیے ہیں کہ تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔) [سورہ زمر : 53]
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 4810]
کچھ مشرک اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے، جو قتل و زنا میں بہت زیادہ ملوث رہ چکے تھے اور آپ سے کہنے لگے: آپ ہمیں جس مذہب اسلام اور اس کی تعلیمات کی دعوت دے رہے ہیں، وہ یقینًا بہترین چیزیں ہیں۔ لیکن یہ بتائیں کہ ہمارا جو حال ہے اور ہم جس طرح شرک اور بڑے بڑے گناہوں میں ملوث ہيں، کیا آپ کے مذہب میں اس کا کوئی کفارہ ہے؟
چنانچہ یہ دونوں آیتیں اتریں اور اللہ تعالی نے بتایا کہ انسان چاہے جتنی تعداد میں جتنے بھی بڑے بڑے گناہ کر بیٹھے، سچے دل سے توبہ کرنے پر اللہ اس کی توبہ قبول ضرور کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو لوگ آگے بھی کفر اور سرکشی کے راستے پر چلتے رہتے اور اسلام قبول نہ کرتے۔